نقطہ نظر

آبادی بم

ہماری بجلی بنانے کی رفتار بہت کم اور بچے پیدا کرنے کی بہت تیز ہے

مشہور کالم نگار اور دانشور جناب حسن نثار صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا خطرہ دشمن کا ایٹم بم نہیں بلکہ ہمارا اپنا آبادی کا بم ہے جو لمحہ بہ لمحہ پھولتا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت پھٹ کر پورے ملک کو مفلوج کر سکتا ہے-

پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے- اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان، انڈیا اور چائنا کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا- بدعنوانی میں سرفہرست ہونے کے بعد یہ ہمارا دوسرا بڑا کارنامہ ہو گا-

ہمارے دوست ڈاکٹر پٹو کے مطابق پاکستان میں آبادی تیزی سے بڑھنے کی وجہ یہاں کے لوگوں کا بےروزگار ہونا ہے- خیر یہ تو ایک مذاق کی بات ہے لیکن ہم اگر ان وجوہات پر غور کریں جو آبادی میں اضافے کا باعث ہیں، تو سب سے بڑی وجہ کم علمی نظر آتی ہے-

بہت سارے لوگ میرا یہ بیان پڑھ کر حیران ہوئے ہونگے کیونکہ ہمارے یہاں لوگوں کا ایمان ہے کہ جو بچہ اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ اپنا رزق خدا کی طرف سے لیکر آتا ہے- اور میں اس بات سے اتفاق بھی کرتا ہوں-

آج سے ہزاروں سال پہلے جب انسان، اس زمین پرغاروں میں رہتا تھا، اس وقت بھی خوراک کا حصول نہایت دشوار تھا- لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر آدمی اپنا رزق پاتا ضرور تھا- نہیں تو نسل انسانی انہیں غاروں میں ناپید ہوچکی ہوتی- آج جب دنیا کی آبادی اربوں تک پہنچ چکی ہے، اگر آپ حساب لگائیں تو اجناس کی پیداوار بھی اسی حساب سے بڑھہ چکی ہے-

دنیا میں بہت سے ممالک بھوک اور افلاس کا شکار ہیں- لیکن بہت سارے ایسے ممالک بھی ہیں جہاں اجناس کو صرف اس لئے تلف کردیا جاتا ہے کہ کہیں مارکیٹ میں ان کی قیمت میں کمی نہ آجائے-

خدا نے تو سب کے لئے رزق پیدا کیا ہے، لیکن چند انسان فرعون بن کر اس پر غاصب ہوجائیں تو اس میں خدا کا کیا قصور؟ ہمارا اپنا ملک اس کی زندہ مثال ہے- جہاں کروڑوں لوگ غربت کا شکارہیں- لیکن چند زرپرست اجناس کا ذخیرہ کر کے اسے ڈبل، ٹرپل قیمت میں بیچتے ہیں یا پھر دس گنا زیادہ قیمت پر پڑوسی ممالک میں اسمگل کر دیا جاتا ہے-

تو پھر مسئلہ کیا ہے، پیدا کئے جائیں بچے! جب رزق کا وعدہ خدا نے کیا ہے تو ہمیں پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے-

یہاں مجھے بیس سال پہلے، آبادی پر ہونے والا ایک پروگرام یاد آ گیا، جس میں ایک مولانا صاحب عین یہی بات فرما رہے تھے، تو ہمارے ساتھہ آئی ہوئی ایک دوست اچانک کھڑی ہو گئیں اور مولانا صاحب سے پوچھا؛

"کیا خدا نے بچے کے اسکول کی فیس، کتابوں کا خرچہ، رہنے کے لئے گھر اور پہننے کے لئے کپڑوں کا بھی وعدہ کیا ہے؟" یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب مولانا صاحب کے پاس نہیں تھا-

یہ سوال واقعی قابل غور ہے- کیا پاکستان جیسے ملک میں پیدا ہونے والے بچے کیلئے اچھی تعلیم، پینے کا صاف پانی، صاف ستھرا گھر جیسی بنیادی چیزیں میسر ہیں؟ سوال کا جواب آپ جانتے ہیں- ہمارے ملک میں کروڑوں کی تعداد میں ایسے بچے اور بچیاں موجود ہیں جو غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہیں یا ان مدرسوں میں جانے پر مجبور ہیں جہاں انہیں تین وقت کا کھانا اور رہائش دی جاتی ہے (اور ساتھ میں انتہاپسندی کی تعلیم بھی)-

آج سے تیس چالیس سال پہلے شہروں میں آٹھ دس بچے پیدا کرنا عام بات تھی- خود ہم آٹھ بہن بھائی ہیں- ہمیں ملا کر نو، اور امی ابو کو ملا کر ٹوٹل گیارہ افراد کی پوری ٹیم تیار تھی-

یہی صورتحال ہمارے محلے، خالہ، ماموں، تایا اور پھوپھی کے یہاں بھی تھی- ہم نے ایک بار ہمت کر کے والد سے اس کثرت اولاد کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے زمانے میں زیادہ  بچے پیدا کرنا قابل فخر بات تھی- کم بچے والے حضرات زیادہ  بچوں والے حضرات کے آگے سر نہیں اٹھا سکتے تھے- اور جن کی ایک یا دو اولاد ہوا کرتی تھیں وہ تو شرمندگی کے باعث محفلوں میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے- ہمارے خیال میں چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں آج بھی یہ سوچ اسی طرح قائم ہے-

آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ لوڈشیڈنگ ہے اور اس کی وجہ ناقص منصوبہ بندی ہے- ہم نے ماضی میں بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تو بنائے لیکن آبادی کو کنٹرول کرنے کا کوئی قابل ذکر منصوبہ نہیں بنایا- لہذا لوڈشیڈنگ کا بھوت آج آپ کے سامنے ہے- جس طرح ہماری آبادی بڑھے گی، بجلی کی ڈیمانڈ بھی بڑھے گی اور ہماری بجلی بنانے کی رفتار بہت کم اور بچے پیدا کرنے کی بہت تیز ہے-

آخر میں ہمارا آپ سے سوال ہے کہ کیا منصوبہ بندی یا خاندانی منصوبہ بندی اسلام کے خلاف ہے؟

یہاں ہم قرآن میں موجود حضرت یوسف کے واقعے کی طرف توجہ دلانا چاہیں گے- جس میں انہوں نے خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ ان کا ملک اگلے سات سال تک خوش حالی کا شکار رہے گا اور خوب اجناس پیدا ہونگی اور اس کے بعد آنے والے سات سال قحط سالی کا شکار ہو جائیں  گے-

حضرت یوسف نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ خوشحالی کے دور میں اجناس کا استعمال احتیاط سے کیا جائے تا کہ وہ قحط سالی کے زمانے میں کام آ سکیں- یہ منصوبہ بندی نہیں تو اور کیا ہے؟؟؟


خرم عباس

لکھاری نے پاکستان کے اسٹریٹجک معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔