کراچی میں ٹریفک کا نظام خواتین اہلکاروں کے سپرد
کراچی : "ذرا دیکھو سڑک کے درمیان ایک خاتون اسٹاپ سائن کے ساتھ کھڑی ہے"۔
بریکوں پر پیروں کا دباﺅ ڈال کر ڈرائیورز نے اپنی گاڑیاں روک دیں اور کسی نے بھی سرخ بتی کو توڑنے کی ہمت نہیں کی۔
کچھ موٹرسائیکلیں جو زیبرا کراسنگ سے کچھ آگے نکل گئی تھیں وہ آہستگی سے لائن سے پیچھے چلی گئیں اور یہ سب کچھ کسی سوال یا اعتراض کے بغیر ہوا۔
ایسا انوکھا منظر کراچی کے فوارہ چوک سے پی آئی ڈی سی اور دو تلوار کے انٹرسیکشنز میں نظر آیا جہاں تیس کے لگ بھگ خواتین ٹریفک اہلکار ٹریفک کنٹرول کرتی ہوئی سڑکوں پر نظر آئیں۔
ہیڈ کانسٹیبل بوبی تبسم نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا "ہم اس لمحے کی تربیت ایک ہفتے سے لے رہے تھے اور انشاءاللہ اگلے ہفتے ہم ٹریفک پولیس کی نئی سفید وردیوں میں ملبوس یہاں نظر آئیں گی"۔
ان کا کہنا تھا "بہت جلد مزید خواتین شاہراﺅں پر ٹریفک کو سنبھالتی نظر آئیں گی کیونکہ توقع ہے کہ جلد مزید ستر خواتین ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں گی، ہم میں سے کچھ کا تعلق پولیس آپریشنز، کچھ انویسٹی گیشن اور دیگر سی آئی اے سے ہیں"۔
پولیس کانسٹیبل مدیحہ شاہ نے بتایا کہ ان کے تربیتی اوقات دوپہر بارہ بجے سے شام پانچ بجے تک تھے، جس کے دوران ایک پولیس بس کے ذریعے انہیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت فراہم کی گئی تھی "ہم سب گھربار والی خواتین ہیں اور جب ٹرانسپورٹ ہم سب کے لیے مسئلہ بن گیا تو ہمارے ادارے کی جانب سے یہ سہولت فراہم کی گئی جس کے لیے ہم اس کے شکر گزار ہیں"۔
کچھ خواتین اہلکاروں نے سیاہ قمیضیں اور خاکی شلواریں پہن رکھی تھیں جبکہ دیگر خاکی ٹراﺅزر میں نظر آئیں، ایک اہلکار مہوش دانی کا کہنا تھا "اس معاملے میں کافی لچک دی گئی ہے تاکہ ہم کام کے دوران اطمینان محسوس کرسکیں"۔
مرد پولیس اہلکاروں کے ساتھ کام میں مصروف ان خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں اب تک کسی قسم کے مسئلے کا سامنا نہیں ہوا، ایک اہلکار عاصمہ اختر کے بقول "میں چھ ماہ کی حاملہ ہوں اور یہ میرا پہلا بچہ ہے، یہی وجہ ہے کہ میں اپنے سپروائزر کی شکرگزار ہوں جو اس وقت مجھے ریلیف فراہم کرتے ہیں جب میں تھکاوٹ محسوس کرنے لگتی ہوں"۔
اس کا مزید کہنا تھا "میرے شوہر اور میں چار سال سے بچے کے خواہشمند تھے اور اب جب میں حاملہ ہوں تو وہ میرے ٹریفک کنٹرول کرنے کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں، یہ سخت ہونے کے ساتھ کافی پرجوش کام ہے، میں جلد تعطیلات پر چلی جاﺅں گی مگر توقع ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد یہاں واپس آسکوں گی"۔
ہیڈ کانسٹیبل سیف ال خان کا کہنا تھا کہ وہ خواتین کے ساتھ کام کرکے خوش ہیں "ہم اکثر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین ڈرائیورز کو روکتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں مگر اب یہ ہماری لیڈی کانسٹیبلز ساتھیوں کا مسئلہ ہے"۔
ان خواتین اہلکاروں کے سپروائزرز میں سے ایک ہیڈ محرر محمد جواد جدون نے بتایا کہ ہم نے انہیں ٹریفک قوانین پر بریفننگ کے ساتھ ان کے فرائض کے بارے میں سمجھایا ہے "وہ ہر چیز جلد سیکھ لیتی ہیں اور مجھے اکثر ایک بار سے زیادہ چیزوں کی وضاحت نہیں کرنا پڑتی، مگر میرے خیال میں وہ جلد تھکن کا شکار ہوجاتی ہیں اور ہمیں انہیں چھوٹے وقفے لینے کا موقع فراہم کرنا چاہئے، پھر بھی مجھے توقع ہے کہ اعتماد حاصل کرنے کے بعد وہ اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی"۔
کراچی کی شاہراﺅں پر اس نئی تبدیلی کا خیال ڈی آئی جی ٹریفک ڈاکٹر امیر شیخ نے پیش کیا "میں خواتین کو مساوی مواقعے فراہم کرنے پر یقین رکھتا ہوں اور میں مردوں کے بالادست معاشرے میں خواتین اہلکاروں کو آگے لانا چاہتا ہوں،اس نئی تبدیلی کے لیے میں کم از کم سو خواتین اہلکاروں کو سڑکوں پر لانا چاہتا ہوں اور ہم محکمہ پولیس میں شامل خواتین کو ٹریفک پولیس کے انتخاب کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں اضافی ایک ہزار روپے کا الاﺅنس اور پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی فراہم کررہے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا "اس وقت صرف تیس کے لگ بھگ خواتین سرگرم ہیں مگر یہ ایک مثبت تبدیلی ہے، میں چاہتا ہوں کہ وہ ہر جگہ ٹریفک کا نظام سنبھالیں کیونکہ لوگ خواتین کو دیکھ کر اپنا رویہ بہتر کرلیتے ہیں اور ان کی بات سنتے بھی ہیں، اس طریقے سے شاہراﺅں پر پولیس اور عوام کے درمیان ہونے والی تکرار بھی کم ہوجائے گی"۔