دنیا

ہندوستان: معذور خواتین کو جانوروں سے بھی بدتر سلوک کا سامنا

ہیومین رائٹس واچ کی رپورٹ میں خواتین کے ساتھ اس سلوک کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔

نئی دہلی : ہندوستان میں ذہنی طور پر معذور خواتین کو اکثر ایسے اداروں میں بند کردیا جاتا ہے جہاں انہیں جنسی اور 'جانوروں سے بھی بدتر' سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس بات کا انکشاف انسانی حقوق کے لیے سرگرم ایک ادارے ہیومین رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔

ہیومین رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ذہنی طور پر معذور خواتین کو اکثر پرہجوم ریاستی طبی اداروں میں ڈال دیا جاتا ہے جہاں بنیادی سہولیات کی بھی کمی ہوتی ہے اور وہاں ان بے بس خواتین مختلف مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

رپورٹ کو مرتب کرنے والی کریتی شرما نے بتایا کہ ایک بار جب یہ خواتین ان اداروں میں بند ہوجاتی ہیں تو ان کی زندگیاں تنہائی، خوف اور ظلم سے بھر جاتی ہیں جس سے فرار کی کوئی امید نہیں ہوتی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ معذوری کا شکار خواتین و لڑکیوں کو مختلف چیلنجز جیسے جنسی تشدد اور تولیدی صحت تک رسائی سے انکار وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

رپورٹ میں خواتین کے ساتھ اس سلوک کو جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے ان 52 خواتین و لڑکیوں سے انٹرویو لیے گئے جو اس طرح کے سرکاری اداروں میں موجود تھیں۔

رپورٹ میں ایک گیارہ سالہ بچی کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کا کہنا تھا کہ 'مجھے اسکول چھوڑ کر آنے والی عملے کی ایک آنٹی نے مجھے وہاں اور یہاں(ادارے کے اندر) مارا، اس نے مجھے اپنے ہاتھوں سے بہت زور سے تھپڑ مارے'۔

اس نے مزید کہا کہ 'جب وہ مجھے مارتی ہیں تو میں رونے لگتی ہوں اور اداس ہوجاتی ہوں میں اس جگہ سے نکلنا چاہتی ہوں'۔

ہندوستان کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق مختلف طرح کی ذہنی معذوری کے شکار افراد کی تعداد 22 لاکھ سے زائد ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار حقیقی تعداد سے بہت کم ہیں۔

مغربی پونا کے ایک مینٹل ہسپتال کے سپرٹینڈنٹ ولاس بھیلومی کا کہنا ہے کہ گنجائش سے زیادہ مریض سب سے بڑا مسئلہ ہیں"ہمارے پاس 1850 سے زائد مریضوں کے لیے صرف سو کے لگ بھگ بیت الخلاء ہیں جن میں سے بھی صرف پچیس ہی کام کررہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کھلے عام حاجت پوری کرنا عام ہے"۔

مختلف بیماریوں اور معذوری جیسے 'شیزو فرنیا' کی شکار خواتین کو اکثر ان کا خاندان زبردستی ہسپتال میں داخل کرادیتے ہیں حالانکہ ہندوستان میں کسی فرد کا جبری ہسپتال میں داخلہ غیرقانونی ہے۔

پونا کے ہسپتال کی ایک نرس کے مطابق رشتے دار ان مریضوں کو ہسپتال میں پھینک دیتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ کافی ہوتا ہے، وہ اپنے رہائشی پتے اور فون نمبر فرضی بتاتے ہیں تاکہ ہم ان سے دوبارہ رابطہ نہ کرسکیں۔