Dawn News Television

شائع 17 دسمبر 2014 01:10pm

سزائے موت پر پابندی ختم

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات میں سزا پانے والوں کی سزائے موت پر پابندی ختم کردی ہے ۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے کیے گئے اس فیصلے کا اطلاق دہشت گردی سے متعلق کیسز میں سزا پانے والوں پر ہوگا۔

انتہائی موقر ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ گزشتہ روز پشاور کور کوارٹرز کے دورے کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات میں اس پابندی کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیا، جس پر فوری عملدرآمد شروع کیا جائے گا۔

وزیراعظم کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں دہشت گرد انسداد دہشت گردی کی مختلف عدالتوں سے سزا پانے کے باوجود جیلوں میں قید سزائے موت کے منتظر ہیں جس کی وجہ سے سیکیورٹی فورسز کو انتہائی سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان کی جیلوں پر حملوں کے بھی خدشات ہیں لہذا سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی سزا پر پابندی کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔

جس کے بعد وزیراعظم نے سزائے موت پر پابندی سے فوری طور پابندی ہٹانے کا اعلان کردیا ہے،جس کا اطلاق خالصتاً دہشت گردی میں سزا پانے والے افراد پر ہوگا، جبکہ دیگر جرائم میں ملوث قیدیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

توقع ہے کہ آئندہ 24 یا 48 گھنٹوں میں اس فیصلے پر عملدرآمد شروع کردیا جائے گا، جبکہ وزیراعظم نواز شریف آج پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی تمام سیاسی رہنماؤں کو اس فیصلے سے متعلق اعتماد میں لیں گے۔

سزائے موت پر پابندی کچھ سال قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں یورپی یورنین کے مطالبے پراس وقت لگائی گئی تھی،جب پاکستان تجارت کے حوالے سے یورپین یونین سے بات چیت کر رہاتھا۔

تاہم گزشتہ روز پشاور حملے کے بعد عالمی رہنماؤں کی جانب سے ٹیلی فون پر وزیراعظم نواز شریف کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں حکومت پاکستان جو بھی فیصلہ کرے گی عالمی برادری اس فیصلے کی حمایت کرے گی۔

نمائندہ ڈان نیوز کے مطابق فی الوقت موت کی سزا پانے والے کم و بیش ایک ہزار سے زائد خطرناک دہشت گرد مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ تاہم اس فیصلے کے بعد یہ قیدی صدر مملکت سے بھی کوئی اپیل نہیں کر سکیں گے۔

اس فیصلے کے اطلاق میں دہشت گردوں کے مقامی یا غیر ملکی ہونے کے حوالے سے کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا اور پاکستان عالمی برادری کو اس سلسلےمیں پہلے ہی اعتماد میں لے چکا ہے۔

Read Comments