پکوان کہانی: دھانسک
یہ 1997 کی بات ہے جب ڈان اخبار پاکستان کے 50 ویں یوم آزادی پر خاص سپلیمنٹ شائع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، اور مجھے اس حوالے سے ایک مضمون لکھنے کی ہدایت کی گئی۔
میرے ایڈیٹر نے مجھے اردشیر کاﺅس جی کا فون نمبر دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اس مضمون کے حوالے سے ان سے مدد لوں۔ میں اندر سے مسکرانے لگی۔ مجھے اردشیر اچھے لگتے تھے۔ وہ تنقید میں مہارت رکھتے تھے اور ان کے ساتھ رہنا لطف سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ میں ان سے اچھی طرح واقف تھی، جس کے لیے میں ڈان گروپ کی عمارت کی طویل راہداریوں کی شکر گزار ہوں جہاں سب ایک دوسرے سے مل پاتے ہیں۔
میں باتھ آئی لینڈ میں اردشیر کاﺅس جی کے خوبصورت بنگلے پر پہنچی۔ وہ لذیذ ' دھانسک' کھا رہے تھے، جو دیکھنے میں حلیم یا دال گوشت لگ رہا تھا مگر اس کا ذائقہ کچھ مختلف تھا۔
اس پکوان کی گہرائی میں دالوں اور سبزیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے جو اسے منفرد اور جداگانہ ذائقہ دیتی ہے جبکہ اسے براؤن چاولوں کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ انتہائی مزیدار ہوجاتا ہے۔ یہ پہلی بار تھا جب میں نے دھانسک کھایا۔
شارمین او برائن فوڈ گائیڈ ٹو انڈیا میں دھانسک کی ان الفاظ میں تعریف کرتے ہیں:
' پارسی پکوانوں میں ممکنہ طور پر سب سے مشہور گوشت اور دالوں کے ساتھ بنائے جانے والی ڈش دھانسک ہے جسے کبھی شادیوں میں نہیں رکھا جاتا ہے کیونکہ روایتی طور پر اسے کسی فرد کی موت کے چوتھے روز پیش کیا جاتا ہے اور اس نسبت کے باعث یہ شادیوں کی تقاریب کا حصہ نہیں۔ لیکن اس کے باوجود دھانسک لوگوں میں بہت پسند کیا جاتا ہے اور یہ پارسی ریسٹورنٹس کے مینو میں ایک کامیاب ڈش ہے۔ پارسی باورچیوں کی ایک خاص بات کھانوں میں بڑی تعداد میں اجزاء کے استعمال میں مہارت ہے۔ ایک سادہ دھانسک بھی بیس منفرد اجزاء کا مرکب ہوسکتا ہے جبکہ کسی کسی میں تو یہ تعداد دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔'
میری تحقیق کے مطابق پارسی پکوان کچھ کھٹے (سرکے، ٹماٹر اور میتھی کے استعمال کے باعث) اور میٹھے (سفید یا براؤن چینی کے باعث) ہوتے ہیں۔ دھانسک کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ پیٹ بھرنے کے لیے بہترین پکوان ہے اور روایتی طور پر اسے اتوار کو دوپہر کے کھانے کے طور پر تیار کیا جاتا ہے۔
اور کیونکہ اسے ہاضمے کے لحاظ سے بھاری پکوان مانا جاتا ہے، اس لیے اس سے لطف اندوز ہونے کے بعد دوپہر کو آرام ضرور کیا جاتا ہے۔
اس کے آغاز کے حوالے سے متعدد کہانیاں موجود ہیں اور دیگر تمام لذیذ کھانوں کی طرح دھانسک بھی تاریخ اور جغرافیے کی مہربانی سے ہی ابھرا۔
مانا جاتا ہے کہ اس کی جڑیں فارسی سالن خوسش میں چھپی ہیں، یہ خاص کھانا جو وقت کے ساتھ تبدیل ہوکر دھانسک کی شکل اختیار کرگیا، خشک آلو بخاروں، دالوں، پالک اور گوشت کے ساتھ تیار کرکے چاولوں کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔
پارسیوں کی برصغیر ہجرت کے بعد خوسش کا نام دھانسک میں تبدیل ہوگیا۔
پیٹ چیپمن اپنی کتاب انڈیا فوڈ اینڈ کوکنگ میں کہتے ہیں:
'روایتی طور پر دھانسک میں ہمیشہ بکرے کا گوشت اور چار اقسام کی دالیں استعمال کی جاتی جبکہ اسے ہلکی آنچ پر پکایا جاتا ہے تاکہ تمام ذائقے آپس میں مل سکیں۔ پکانے کے دوران بینگن، ٹماٹر، پالک، اور تازہ لال مرچوں سے تیار کردہ سالن بھی ملایا جاتا ہے۔ گوشت کو سبزیوں اور پھلوں میں ملانا خاص پارسی طریقہ کار ہے، اور اس کی فارسی جڑوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ دھانسک ممکنہ طور پر سب سے مقبول پارسی پکوان ہے، جو ترش و میٹھے ذائقوں سے بھرپور ہوتا ہے۔ اس میں مٹھاس براﺅن شوگر اور ترش پن لیموں کے ذریعے آتا ہے۔
اس پکوان کا نام گجراتی زبان کے الفاظ دھن اور سک سے اخذ کیا گیا ہے۔ دھن کے معنی دولت مند اور سک کے معنی سبزیاں ہیں۔ اگر اسے کچھ مختلف انداز میں بولا جائے تو دھان کا مطلب چاول بھی ہوسکتا ہے جو کہ اس پکوان کا لازمی جزو ہے۔'
دھانسک 19 ویں صدی میں انتہائی مقبولیت حاصل کرچکا تھا جس کی وجہ بمبئی اور کراچی کی تیزی سے ترقی تھی۔ یہاں ملازمت پیشہ افراد کو چائے اور کھانے کی اشیاء ایران سے تعلق رکھنے والے پارسی تارکین وطن فراہم کرتے تھے جنھوں نے گلیوں میں سوڈا واٹر، بسکٹ، چائے، آملیٹ اور دھانسک وغیرہ کے اسٹال کھول رکھے تھے۔ اور اس طرح برصغیر کے دو ساحلی شہر کراچی اور بمبئی اس خطے میں آنے والے پارسیوں کے لیے دو پسندیدہ ترین شہر بن گئے۔
دلچپسپ بات یہ ہے کہ برصغیر میں آنے والے کھانوں اور انہیں تیار کرنے والے باورچیوں نے ان کے روایتی ناموں کو نئے معنی دے دیے۔ اس طرح لفظ قورمہ ایک روغن دار پکوان کے طور پر پہچانا جانے لگا جبکہ دھانسک کا مطلب ہلکی سی میٹھی دالوں کا سالن قرار پایا، جبکہ ونڈالو نام سے عندیہ ملتا تھا کہ یہ پکوان بہت زیادہ تیکھا ہوگا۔
کھانوں کی تاریخ میں مہارت رکھنے والی لزی کولنگھم اپنی کتاب 'کری' میں تحریر کرتی ہیں:
'ساتویں اور آٹھویں صدی میں فارس پر عربوں کے حملے کے بعد آتش پرست، جنہیں پارسیوں کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بھاگ کر انڈیا کے مغربی ساحلی علاقوں میں بسنے لگے۔ ان افراد نے اپنے نئے ماحول اور یہاں کی متعدد عادات کو اپنا لیا۔ جب یورپی اقوام اس خطے میں آنا شروع ہوئیں تو انہوں نے مزید چیزوں کو اپنایا، انگریزی سیکھی، جہاز رانی میں قدم جمائے، اور چین سے تجارت کرکے امیر ہونے لگے۔ بمبئی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر کمپنی کے آغاز اور بعد میں بھی پارسیوں کے ساتھ گھل مل گئے تھے اور جب ایک بار برصغیر پر ان کی حکمرانی قائم ہوگئی تو وہ اپنے گھروں میں پارسی باورچیوں کو رکھنے لگے۔
اس طرح پارسی پکوان دھانسک برطانیہ میں مقبول ہوگیا۔ یہ چار دالوں کا امتزاج ہوتا ہے جسے بکرے یا مرغی کے گوشت اور سبزیوں کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ یہ گاڑھا اور بہت تیکھا ہوتا ہے جسے پارسی انداز میں بھورے چاولوں اور تلے ہوئے پیاز کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ املی اور بھوری چینی کا استعمال پارسی کھانوں میں ترش و میٹھے سے گجراتی محبت کا اثر ہے۔ دھانسک ان چند پکوانوں میں سے ایک ہے جو اکثر اینگلو انڈین افراد کے کھانے کی میز پر نظر آتا اور بتدریج یہ برطانوی انڈین ریسٹورنٹس کے مینیو کا عام حصہ بن گیا۔'
آج میں جو ترکیب آپ کے ساتھ شیئر کررہی ہوں وہ میری پیاری دوست تیناز جوات کے باورچی خانے سے آئی ہے جو ممبئی کی رہائشی تھیں اور شادی کے بعد کراچی آگئیں۔ ہم دونوں نے ڈان میں اکھٹے کام بھی کیا ہے۔
اب یہ مزیدار ریسیپی میرے باورچی خانے سے آپ کے کچن کا رخ کر رہی ہے۔
اجزا
چوتھائی کپ مسور کی دال (سرخ)
چوتھائی کپ مونگ کی دال (زرد)
چوتھائی کپ ماش کی دال
چوتھائی کپ چنے کی دال
دو پیاز باریک کٹے ہوئے
دو ٹماٹر
دو سے تین ہری مرچیں
چٹکی بھر ہلدی
ایک چائے کا چمچ زیرہ پاﺅڈر
چوتھائی چائے کا چمچ کالا زیرہ
ایک چائے کا چمچ دھنیا پاﺅڈر
ایک چائے کا چمچ مرچ پاﺅڈر
ایک چائے کا چمچ دھانسک گرم مصالحہ
ایک بڑی براؤن الائچی
ایک دارچینی
آدھا چائے کا چمچ میتھی دانے
ایک کپ بینگن
آدھا کپ سرخ کدو
ایک آلو
آدھا کپ گاجریں
آدھا کپ پالک
ایک چائے کا چمچ لہسن ادرک
آدھا کپ تیل
ایک کلو بکرے کا گوشت
نمک حسب ذائقہ
طریقہ کار
دالوں کو چار سے چھ گھنٹے تک بھگو کر رکھیں۔ پھر انہیں پانی میں ابالیں۔ جب دالیں ابل جائیں تو اس میں بینگن، آلو، کدو، گاجریں، اور پالک کو شامل کرکے اس وقت تک پکائیں جب تک سبزیاں پک نہ جائیں۔ اس دوران ہاتھ سے سبزیوں اور دالوں کو ایک دوسرے میں ملاتے رہیں۔
ایک دوسرے برتن میں تیل کو گرم کرکے لہسن ادرک اور تمام مصالحوں کو تل لیں، پھر ان میں ایک کٹی ہوئی پیاز، ٹماٹر، مرچیں اور گوشت کو شامل کرلیں اور پھر انہیں نرم ہونے تک پکاتے رہیں۔ اب گوشت اور دالوں کو اکھٹا کرکے اس وقت تک پکائیں جب تک اچھی طرح گھل نہ جائیں۔ اسے لیموں، تازہ دھنیے اور تیلی ہوئی پیاز سے سجالیں۔
بھورے چاول
پیاز کے آدھے حصے کو کاٹ کر تل لیں پھر اس میں چار سبز اور ایک سیاہ الائچی، پانچ لونگیں، پانچ رائی کے دانے، ایک تیج پات، نمک اور حسب ذائقہ براﺅن شوگر کا اضافہ کرلیں۔
ایک بار جب چینی اس میں گھل جائے تو ڈھائی کپ مرغی یا گائے کا گوشت اس میں شامل کرنے کے بعد ابال لیں، اس کے بعد ایک کپ براﺅن چاول اس میں ڈالیں۔ پھر اس وقت تک پکائیں جب تک وہ نرم نہ ہوجائے اور پھر دھانسک کی پلیٹ میں کچومر (کٹی ہوئی پیاز، ٹماٹر، سبز مرچیں، کھیرے، دھنیے اور لیموں کے رس) کے ساتھ پیش کریں۔
لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔
انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
