Dawn News Television

شائع 25 دسمبر 2014 01:07pm

کیا صحیح، کیا غلط؟

گذشتہ دنوں ملک کے ایک بڑے انگریزی روزنامے نے اپنے فرنٹ پیج پر دہشتگردوں کی پھندے سے لٹکتی ہوئی لاشوں کی تصویر شائع کی، جنہیں فیصل آباد میں جمعے کے روز پھانسی دے دی گئی تھی۔

ایک اور انگریزی اخبار نے اپنے فرنٹ پیج پر سانحہ پشاور کے خلاف کراچی میں جمعے کے روز ایم کیو ایم کی کال پر نکالی جانے والی ریلی کی تصویر شائع کی، جس میں دو لڑکوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ 'آنکھ کے بدلے آنکھ، سب کو لٹکا دو، اونچا لٹکا دو۔'

اسلام آباد میں لال مسجد کے باہر مظاہرین کی بھی ایک تصویر ہے، جس میں ایک شہری کے پلے کارڈ پر لکھا ہے، 'بھاگ برقعہ بھاگ۔'، جو مولانا عبدالعزیز کے 2007 میں لال مسجد سے فرار ہونے کی کوشش کی جانب اشارہ ہے۔

گذشتہ ہفتے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں جو آگ و خون کا کھیل کھیلا گیا، وہ برداشت سے باہر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے شہریوں کی تضادات اور کنفیوژن سے بھری ہوئی ذہنیت، جس کی عکاسی پشاور حملے پر ردِ عمل سے ہورہی ہے، مزید پریشانی کا باعث ہے۔

پاکستانی ریاست اور معاشرہ اس مقام پر ایک طویل عرصے بعد پہنچے ہیں، اور یہ پورا عرصہ اچھے اور برے طالبان کے درمیان فرق پر بحث کرتے ہوئے گزرا ہے۔ اس بات پر بھی بحث کی جاتی رہی ہے کہ آیا طالبان سخت گیر دہشتگرد ہیں یا ناراض بھائی، اور یہ کہ درست اقدام امن مذاکرات ہیں یا پھر ایک فوجی آپریشن۔

ریاست بھی دونوں ہی جانب جھولتی رہی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے آغاز سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف نے خود کئی جماعتوں پر مشتمل کانفرنس بلائی تھی، تاکہ تحریکِ طالبان پاکستان سے کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے پلان بنایا جاسکے۔

اس سب نے عوام کو ایسی کنفیوژن میں ڈال دیا ہے جس نے عوام کی فرق کرنے کی بنیادی صلاحیتیں بھی ختم کردی ہیں، جن سے معاشرے میں پرتشدد انتہاپسندی کے خلاف محاذ کھڑا کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔

شمال مغربی خطے میں آپریشن کی کئی لوگوں نے کئی بنیادوں پر مخالفت کی ہے، جس میں سے کچھ وجوہات معقول ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن جس بات پر میں زور دینا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون اور بموں کے استعمال سے ایک شدید جوابی کارروائی کے لیے میدان صاف ہوجائے گا۔

اس میں سے کچھ آوازیں گذشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد مزید بلند ہوگئی ہیں۔ جو دلیل دی جارہی ہے وہ یہ کہ ریاست اور فوج نے خود قتلِ عام کو دعوت دی کیونکہ ان پر شمال مغربی حصے میں مبینہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران یہی کرنے کا الزام ہے۔

اور حقیقت میں ٹی ٹی پی نے یہی کہا کہ پشاور حملہ افواجِ پاکستان کے حملوں میں خواتین اور بچوں کے ہلاک ہونے کا بدلہ ہے۔

لیکن یہ دلیل بے بنیاد ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی عسکریت پسند گروہ ہی تھے، جنہوں نے ریاست کے خلاف سب سے پہلے ہتھیار اٹھائے، اور ریاستی اداروں، آبادی، شہریوں، اور ملٹری کو نشانہ بنایا۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ کئی سماجی، اقتصادی، سیاسی، اور دیگر وجوہات نے ان گروپوں کو یہ اقدام کرنے پر مجبور کیا، جس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست نے اپنے مفادات کے لیے ایک عرصے تک ان افراد کو تحفظ اور سرپرستی میں رکھا۔

لیکن اس کے باوجود یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسی مسلح بغاوت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے، جس میں سویلین نشانہ بن رہے ہیں۔ میدانِ جنگ میں اچھا رویہ اپنانا مہنگا پڑ سکتا ہے، اور اس وقت قبائلی علاقے میدانِ جنگ ہی ہیں۔ لیکن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ان علاقوں کی ایسی تشہیر نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ پھر تمام جنگی قوانین (مثلاً قیدیوں کا تحفظ) لاگو ہوں گے۔ لیکن اسے ایسا کرنا چاہیے۔

اس کے بعد سرِعام پھانسیوں اور دہشتگردی میں ملوث لوگوں کے مارے جانے کے بارے میں ان لوگوں کی آوازیں ہیں، جو خود کو لبرل سمجھتے ہیں۔ کیا خون کی یہ پیاس ان افراد کو انہی لوگوں کی سطح پر نہیں لے آتی جن کے یہ خلاف ہیں؟ کیا تشدد کو تشدد کے ذریعے ختم کرنا صحیح ہے؟

بلاشبہ پشاور حملے کے مجرمان (اگر زندہ ہوتے)، سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری، اور پاکستانیوں کے قتل میں ملوث دیگر لوگوں کو پھانسی کے پھندے سے جھولتا دیکھنا تسلی کا باعث بنے گا۔ ہاں یہ چاہت فطری ہے کہ ہم ان کے ساتھ وہی ہوتا ہوا دیکھیں، جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا۔ لیکن اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ لوگ قانون کا سامنا کریں، جسے مزید مضبوط اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

سزائے موت پر پابندی اٹھائے جانے کی کئی حلقوں کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے جرائم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انہیں پھانسیاں کیوں نہ دی جائیں؟ جواب بہت سادہ ہے۔ ایک بھی غلط پھانسی پاکستان کی پوزیشن کو تہس نہس کردے گی، جسے ہمیشہ اپنے دشمن کی پوزیشن کے برعکس اخلاقیات پر مبنی ہونا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

hajrahmumtaz@gmail.com

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

Read Comments