کیا صحیح، کیا غلط؟

25 دسمبر 2014
کیا تشدد کو تشدد کے ذریعے ختم کرنا صحیح ہے؟
کیا تشدد کو تشدد کے ذریعے ختم کرنا صحیح ہے؟

گذشتہ دنوں ملک کے ایک بڑے انگریزی روزنامے نے اپنے فرنٹ پیج پر دہشتگردوں کی پھندے سے لٹکتی ہوئی لاشوں کی تصویر شائع کی، جنہیں فیصل آباد میں جمعے کے روز پھانسی دے دی گئی تھی۔

ایک اور انگریزی اخبار نے اپنے فرنٹ پیج پر سانحہ پشاور کے خلاف کراچی میں جمعے کے روز ایم کیو ایم کی کال پر نکالی جانے والی ریلی کی تصویر شائع کی، جس میں دو لڑکوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا کہ 'آنکھ کے بدلے آنکھ، سب کو لٹکا دو، اونچا لٹکا دو۔'

 ایم کیو ایم کے کارکن پشاور سانحے کے خلاف ریلی میں شریک ہیں۔ کراچی، 19 دسمبر 2014 — رائٹرز
ایم کیو ایم کے کارکن پشاور سانحے کے خلاف ریلی میں شریک ہیں۔ کراچی، 19 دسمبر 2014 — رائٹرز

اسلام آباد میں لال مسجد کے باہر مظاہرین کی بھی ایک تصویر ہے، جس میں ایک شہری کے پلے کارڈ پر لکھا ہے، 'بھاگ برقعہ بھاگ۔'، جو مولانا عبدالعزیز کے 2007 میں لال مسجد سے فرار ہونے کی کوشش کی جانب اشارہ ہے۔

 سول سوسائٹی کے کارکنان کی جانب سے اسلام آباد میں لال مسجد کے باہر مظاہرہ کیا جارہا ہے — آن لائن
سول سوسائٹی کے کارکنان کی جانب سے اسلام آباد میں لال مسجد کے باہر مظاہرہ کیا جارہا ہے — آن لائن

گذشتہ ہفتے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں جو آگ و خون کا کھیل کھیلا گیا، وہ برداشت سے باہر ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے شہریوں کی تضادات اور کنفیوژن سے بھری ہوئی ذہنیت، جس کی عکاسی پشاور حملے پر ردِ عمل سے ہورہی ہے، مزید پریشانی کا باعث ہے۔

پاکستانی ریاست اور معاشرہ اس مقام پر ایک طویل عرصے بعد پہنچے ہیں، اور یہ پورا عرصہ اچھے اور برے طالبان کے درمیان فرق پر بحث کرتے ہوئے گزرا ہے۔ اس بات پر بھی بحث کی جاتی رہی ہے کہ آیا طالبان سخت گیر دہشتگرد ہیں یا ناراض بھائی، اور یہ کہ درست اقدام امن مذاکرات ہیں یا پھر ایک فوجی آپریشن۔

ریاست بھی دونوں ہی جانب جھولتی رہی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے آغاز سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف نے خود کئی جماعتوں پر مشتمل کانفرنس بلائی تھی، تاکہ تحریکِ طالبان پاکستان سے کسی معاہدے پر پہنچنے کے لیے پلان بنایا جاسکے۔

اس سب نے عوام کو ایسی کنفیوژن میں ڈال دیا ہے جس نے عوام کی فرق کرنے کی بنیادی صلاحیتیں بھی ختم کردی ہیں، جن سے معاشرے میں پرتشدد انتہاپسندی کے خلاف محاذ کھڑا کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔

شمال مغربی خطے میں آپریشن کی کئی لوگوں نے کئی بنیادوں پر مخالفت کی ہے، جس میں سے کچھ وجوہات معقول ہیں اور کچھ نہیں۔ لیکن جس بات پر میں زور دینا چاہتی ہوں، وہ یہ کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون اور بموں کے استعمال سے ایک شدید جوابی کارروائی کے لیے میدان صاف ہوجائے گا۔

اس میں سے کچھ آوازیں گذشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد مزید بلند ہوگئی ہیں۔ جو دلیل دی جارہی ہے وہ یہ کہ ریاست اور فوج نے خود قتلِ عام کو دعوت دی کیونکہ ان پر شمال مغربی حصے میں مبینہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کے دوران یہی کرنے کا الزام ہے۔

اور حقیقت میں ٹی ٹی پی نے یہی کہا کہ پشاور حملہ افواجِ پاکستان کے حملوں میں خواتین اور بچوں کے ہلاک ہونے کا بدلہ ہے۔

لیکن یہ دلیل بے بنیاد ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹی ٹی پی اور اس کے اتحادی عسکریت پسند گروہ ہی تھے، جنہوں نے ریاست کے خلاف سب سے پہلے ہتھیار اٹھائے، اور ریاستی اداروں، آبادی، شہریوں، اور ملٹری کو نشانہ بنایا۔

ہاں یہ ضرور ہے کہ کئی سماجی، اقتصادی، سیاسی، اور دیگر وجوہات نے ان گروپوں کو یہ اقدام کرنے پر مجبور کیا، جس میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاست نے اپنے مفادات کے لیے ایک عرصے تک ان افراد کو تحفظ اور سرپرستی میں رکھا۔

لیکن اس کے باوجود یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسی مسلح بغاوت کے خاتمے کے لیے اقدامات کرے، جس میں سویلین نشانہ بن رہے ہیں۔ میدانِ جنگ میں اچھا رویہ اپنانا مہنگا پڑ سکتا ہے، اور اس وقت قبائلی علاقے میدانِ جنگ ہی ہیں۔ لیکن سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ان علاقوں کی ایسی تشہیر نہیں کرنا چاہتی، کیونکہ پھر تمام جنگی قوانین (مثلاً قیدیوں کا تحفظ) لاگو ہوں گے۔ لیکن اسے ایسا کرنا چاہیے۔

اس کے بعد سرِعام پھانسیوں اور دہشتگردی میں ملوث لوگوں کے مارے جانے کے بارے میں ان لوگوں کی آوازیں ہیں، جو خود کو لبرل سمجھتے ہیں۔ کیا خون کی یہ پیاس ان افراد کو انہی لوگوں کی سطح پر نہیں لے آتی جن کے یہ خلاف ہیں؟ کیا تشدد کو تشدد کے ذریعے ختم کرنا صحیح ہے؟

بلاشبہ پشاور حملے کے مجرمان (اگر زندہ ہوتے)، سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری، اور پاکستانیوں کے قتل میں ملوث دیگر لوگوں کو پھانسی کے پھندے سے جھولتا دیکھنا تسلی کا باعث بنے گا۔ ہاں یہ چاہت فطری ہے کہ ہم ان کے ساتھ وہی ہوتا ہوا دیکھیں، جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا۔ لیکن اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ یہ لوگ قانون کا سامنا کریں، جسے مزید مضبوط اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔

سزائے موت پر پابندی اٹھائے جانے کی کئی حلقوں کی جانب سے مخالفت کی گئی ہے۔ اس کے جواب میں کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے جرائم کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے انہیں پھانسیاں کیوں نہ دی جائیں؟ جواب بہت سادہ ہے۔ ایک بھی غلط پھانسی پاکستان کی پوزیشن کو تہس نہس کردے گی، جسے ہمیشہ اپنے دشمن کی پوزیشن کے برعکس اخلاقیات پر مبنی ہونا چاہیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کی اسٹاف ممبر ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 22 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (10) بند ہیں

Hussain Dec 25, 2014 07:24pm
Yes this time evry step is right due to peshawar incident and some one not accept this we will not say he is good muslim and good pakistani. From Jeddah
Murad Pandrani Dec 25, 2014 07:55pm
bahut ahim aur haqaeq per mabni baatein bayan kaey gaey..
Murad Akbar Raza Dec 26, 2014 03:45pm
So you think they should be treated with honor. Put your feet in those parents shoes who have lost their children and say something.
حسین عبداللہ Dec 26, 2014 07:05pm
ایک طرف آپ پھانسیوں کوفطری تقاضا کہتیں ہیں دوسری جانب اسے اخلاقیات کے لفافے میں ڈال دیتی ہیں۔۔کیا ایک کھلا تضاد ہے کیونکہ جہاں فطرت کی مخالفت ہوگی وہیں پے اخلاقی زوال بھی ہوگا غیر فطری عمل سے ہی تو معاشرتی بگاڑ جنم لیتا ہے سزا وجزا کے قانون میں انصاف کو ملحوظ خاطر رکھنا ہر حال میں ضروری ہے لیکن اس پر عمل درآمد بھی ہرحال میں ضروری ہے
Syed Sagheer Hussain Dec 27, 2014 07:29am
Our Pakistan Army absolutely right.we all of with them.
Assad Dec 27, 2014 12:10pm
Dahshat gardo ko phansi lagani chahyah or ya koi tshadud nahi insaf hy ... Agr Pakistan ka adalti nzam sahi nahi to es par phly keu nahi awaz othahi gahi Ab en halat mein dahshat gardo sy hamdardi ka mtlb kiya hay ?
asaf jilani Dec 27, 2014 07:35pm
دھشت گردی کا مسلہ تشدد سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ برطانیہ نے آئی آر کے خلاف تیس سالہ جنگ تشدد کے بجائےمذاکرات سے جیتی ہے۔ آئی آر اے کی عسکری جدوجہد اور دھشت گردی کے دوران نہ تو فوجی عدالتیں قایم کی گئیں اور نہ کسی کو پھانسی دی گئی۔ تشدد کبھی تشدد سے ختم نہیں ہوتا۔
Shahzad Dec 28, 2014 01:10am
laton ke bhoot batoon se nahi mante hamarey paas Sri Lanka ki masaal bhi hai
iftikhar hussain Dec 28, 2014 12:05pm
justice is never a violence, if you confuse justice with violence then how you will maintain peace in society
نجیب احمد سنگھیڑا Dec 28, 2014 04:36pm
جب لوہا ہی لوہے کو کاٹتا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ تشدد ہی تشدد کو ختم کرے ! ‘لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے‘ اور واث شاہ کے بقول ‘سَوٹا پِیر اے وِگڑیاں تِگڑیاں دا‘ کے مطابق بھی تشدد ، تشدد کا کارگر علاج ہے !