لبرلز سے جان چھڑاؤ!
بس بہت ہوگیا۔ لوگوں کا یہ گروپ ہمارے معاشرے کی ساخت کو کمزور کررہا ہے۔ یہ پہلے ہی ہمیں کافی نقصان پہنچا چکے ہیں اور اگر ہم نے ان کے خلاف اب بھی اقدام نہ کیا تو وہ اپنی نظریاتی انتہاپسندی کو ہماری زندگیوں پر حملے کے لیے استعمال کرتے رہیں گے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں کن لوگوں کی بات کررہا ہوں ؟ وہ ہیں لبرلز، آزاد خیال۔
وہی لبرلز جو اپنے بلند خیالات ان فلسفیوں سے مستعار لیتے ہیں جن کا نام تک ادا کرنا مشکل ہے۔ میرا مطلب ہے کہ آخر یہ نطشے کس قسم کا نام ہے؟ حقیقی شیخی باز۔
اور یہاں مارکسسٹ بھی موجود ہیں۔
میں تو یہ سوچ کر حیران ہوں کہ آخر ان کے درزی ان کے پرچموں کی تیاری کے لیے اتنی بڑی تعداد میں سرخ کپڑا کیسے تلاش کرتے ہیں۔ کیا مساوات کا مطالبہ کرنے والے لوگ تبدیلی کے طور پر اپنے پرچموں کا رنگ نہیں تبدیل کرسکتے؟
اگر پرچموں کی بات کی جائے تو میری بیچاری ماں ٹورنٹو میں پورا دن دھنک رنگ کا پرچم لہراتے ہوئے یہ سوچتی رہیں کہ وہ نسلی عصبیت سے آزاد جنوبی افریقہ کی حمایت کررہی ہیں۔
یہاں تک کہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ پرائیڈ پریڈ کا لوگو ہم ٹی وی کے پرانے لوگو جیسا کیوں لگتا ہے.
میں خاموش رہا۔ آخر میں کیا کہتا؟ میں اس معاملے میں ہمسفر کا انکشاف کرکے ان کی خیالی جنت کو منتشر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میری ماں سادہ لوح ہیں۔ ان کی نسل کو لبرل ازم کے وقتی فیشن کا سامنا نہیں ہوا کیونکہ ہر ایک نے تسلیم کرلیا تھا کہ ان کے پاس کوئی حقوق نہیں جس کے نتیجے میں وہ سب اچھی بھلی خوش باش زندگی گزارنے میں کامیاب رہے۔
انہیں اپنے ساتھیوں کی جانب سے آزادی کے لیے احتجاج کے دباﺅ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، وہ اس سماجی ذمہ داری سے 'آزاد' تھے اور یہی وجہ ہے کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے بجائے وہ اپنے حقوق پر عمل کر لیتے تھے۔
مگر مجھے کہنا پڑے گا کہ آزادی سے اظہارِ رائے کرنے کا کیا فائدہ جب آپ کو اس پر 'لائکس' ہی نہ ملیں؟
کیا پرانی نسل میں اتنی مروت تھی کہ وہ کسی کے خیالات دوہرانے سے پہلے تسلیم کرتے کہ یہ مستعار لیے گئے ہیں؟ میں نے کبھی اپنے دادا دادی کو اپنے کوئی بات باآواز بلند کہنے سے پہلے "@ Retweet" کہتے نہیں دیکھا۔
ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی نہیں تھی، انہیں اپنے کھانوں کی تصاویر بنوا کر دیگر افراد کو دکھانے سے پہلے ہفتوں کا انتظار کرنا پڑتا تھا، اور اپنی تصویر پر درست انسٹاگرام فلٹر کے لیے کوڈک فوٹو اسٹوڈیو پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ وہ اچھے دن تھے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ اب ٹیکنالوجی نے لبرلز کو ہمارے ملک پر بہت زیادہ کنٹرول دے دیا ہے۔
وہ کسی فرد یا کسی چیز یہاں تک کہ ہمارے پرچم تک کا احترام نہیں کرتے اور اسے ٹی شرٹ کے طور پر پہن لیتے ہیں۔ اگر پرچم ملبوسات کے طور پر پہننے کے لیے ہوتے تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ گاندھی ایسا پہلے ہی کرچکے ہوتے؟ یہ ہندوستانی رہنماء جس واحد وجہ سے کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بننے پر قائل نہیں کرسکے، وہ یہ تھی کہ انہوں نے جان لیا تھا کہ وہاں بہت سردی ہے۔ گاندھی سرحد تک گئے اور پھر "نہیں، نہیں، نہیں" کہتے ہوئے واپس آگئے۔
یہ لبرلز چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک جدید جمہوریہ کی طرح کام کرے۔ وہ برطانوی قوانین کے حوالے دیتے ہیں۔ اگر ہم برطانویوں کی حکمرانی کو چاہتے تو ہم انہیں یہاں سے واپس ہی کیوں بھیجتے؟ ہم نے ایک ملک اس لیے تشکیل دیا کیونکہ ہمیں ان کے قوانین، ان کے ضوابط اور ان کے کمیشن وغیرہ پسند نہیں تھے۔
ہمارے دل کو ان کی ریلوے اور کرکٹ پسند آئی تو ہم نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا، مگر ہم ان کی واپسی نہیں چاہتے۔ کیا آپ نے ہمیں یہ چلاتے سنا "سائمن واپس آجاﺅ ہم 1919 کے بارے میں معذرت کرتے ہیں؟" نہیں کبھی نہیں۔
یارو میں ان دنوں کو بہت یاد کرتا ہوں جب پی ٹی وی واحد چینل تھا اور وہ لبرلز سے مکمل پاک تھا۔ اب تمام نجی چینلز پر ان کی بھرمار ہے۔ وہ ہر جگہ ہیں اور سی آئی اے کے تشدد کے غیرمنصفانہ حربوں اور پتا نہیں کیا کچھ کے نعرے لگا کر ہمارے ملک کے بچوں کے ذہنوں کو گمراہ کررہے ہیں۔
میں یہ نہیں جاننا چاہتا کہ سی آئی اے نے کیا غلط کیا۔ میں وہی چیزیں جاننا چاہتا ہوں جو میں اپنے بچپن میں جاننے کا خواہشمند تھا، یعنی نیلام گھر میں کون بے جوڑ جرابیں پہن کر آیا اور آخر میں ایک واٹر کولر کے ساتھ گھر گیا۔
زندگی بہت سادہ تھی۔ یہ لبرلز اس وقت چائے خانوں تک محدود تھے جہاں وہ شاعری پڑھتے اور سعادت حسن منٹو کی تحریر کردہ کتابوں کو گلے سے لگائے رکھتے۔ ان میں سے کوئی بھی رات کے وقت ٹیلیویژن شوز میں نظر نہیں آتا اور مجھے پورا یقین ہے کہ ان میں کوئی بھی یہ نہیں جانتا ہوگا کہ ٹریکٹر کیسے چلایا جاتا ہے یا یہ کہ اس کے چار پہیے ہوتے ہیں۔
ان لبرلز نے اطمینان بخش اور معیاری پروگرامز کو ٹیلیویژن سے دور کردیا ہے اور اب ہمیں ایسے شوز دیکھنے کو مل رہے ہیں جن میں ریاستی پالیسی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
دوستو میرا مطلب یہ کہ میں محض اس وجہ سے ہی ووٹ دیتا ہوں کہ ریاست کسی اور فرد کی ذمہ داری ہو۔
جب تک مجھے میری شاہراہیں اور میٹرو بس میسر ہے مجھے اس بات کی پروا نہیں کہ نواز شریف نیویارک میں کس ہوٹل میں ٹھہرے۔
اب اچانک ہی ان بیس بیس سال کے لوگوں کو محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ لوگوں کو بتا سکتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگ تقسیم کے موقع پر کہاں تھے؟ تم لوگ 1965 میں کیا کررہے تھے؟ اور تم لوگ 1971 میں کہاں گم تھے؟
میں ان کے بہانوں سے آگاہ ہوں "اوہ اس وقت تو ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے " وہی روایتی لبرل رویہ۔ اگر پاکستان نے جو جنگیں لڑی ہیں وہ فیس بک ایونٹس ہوتے تو یہ سب وہاں موجود ہوتے۔
وہ بہت زیادہ دوغلے ہیں۔ میں ان سے پوچھتا ہوں "اگر وہ آزادی چاہتے ہیں تو پاکستان میں رہتے کیوں ہیں؟"
اب وہ مقام آگیا ہے کہ جہاں ہر ایک کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ کس جانب کھڑا ہے، لبرل سائیڈ یا پاکستان کی سائیڈ۔ اس بات میں کسی کو شبہ نہیں کہ پاکستان کے لبرلز کو امریکا، ہندوستان اور دنیا بھر کے صہیونوں نے مل کر مریخ کی ایک فیکٹری میں تیار کیا۔
مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہوتا ہے کہ میں پاکستانی ہوں، مجھے لبرل ازم کی کوئی پروا نہیں۔ اس فلسفے کی بنیاد لبرٹی پر ہے، اور مجھے لبرٹی جانے سے نفرت ہے۔ مجھے وہاں گھنٹوں تک باہر کھڑے رہ کر اپنی ماں کی شاپنگ مکمل ہونے کا انتظار کرنے سے نفرت ہے۔
شہزاد غیاث پاکستانی کامیڈین اور تھیٹر ایکٹر ہیں، اور نیویارک میں کامیڈی شوز کرتے ہیں۔ وہ فلبرائٹ اسکالرشپ پر تھیٹرز میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرShehzad89@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
