اعتزاز حسن کے لیے ' سلیوٹ'
فلم بنانا کبھی بھی آسان کام نہیں رہا اور ہم بہت کم ہی اس کی گہرائیوں پر دی جانے والی تکلیف دہ توجہ کو سمجھ سکتے ہیں۔
ان خوبیوں کے ساتھ انتساب کی مضبوط حس اور جذبہ ایک فلم ڈائریکٹر کو درکار صلاحیتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
ہمیں اس بات کا احساس وقت وقت ہوا جب لولی وڈ کے فلم ڈائریکٹر شہزاد رفیق (گھونگھٹ، نکاح، رخصی، سلاخیں، محبتاں سچیاں وغیرہ) نے ہمیں خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کے دورے میں شرکت کی دعوت دی تاکہ اپنے اسکول اور ساتھی طالبعلموں کو بچانے کے لیے اپنی جان قربان کردینے والے طالبعلم اعتزاز حسن کے بارے میں معلومات اکھٹی کی جاسکے۔
شہزاد رفیق کا کہنا ہے کہ وہ اعتزاز حسن کی کہانی سے جذباتی وابستگی محسوس کرتے ہیں اور وہ اس کے اوپر کے ایک فلم بنانے کا فیصلہ کرچکے ہیں جس کا نام سلیوٹ ہوگا۔
شہزاد رفیق آج کل اپنا زیادہ فارغ وقت کتابیں پڑھنے میں گزارتے ہیں اور فارمولا فلمیں یا ڈرامے بنانے سے گریز کرتے ہیں، حال ہی میں انہوں نے تھامس ہارڈی کے ناول Tess of the D’urbervilles پر مبنی ایک ڈرامہ بنانے پر تبادلہ خیال کیا اور یہ منصوبہ پائپ لائن میں ہے۔
ان کی فلم سلیوٹ نوعمر طالبعلم اعتزاز حسن کی زندگی اور ہیروانہ اقدام پر ہے جس میں اس نے اپنی زندگی خودکش بمبار کو اسکول میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے قربان کردی اور اس طرح ہنگو کے ابراہیم زئی نامی گاﺅں کے چار سو طالبعلموں کی زندگیاں پانچ جنوری 2014 کو بچالیں۔
شہزاد رفیق کے مطابق " اعتزاز کی شہادت نے ہمارے طالبعلموں کی تاریخ میں بہادری کا ایک نیا باب کھلو دیا، اس نے ہمارے نوجوانوں کے اندر چیلنجز جیسے پاکستان کے دشمنوں کے بزدلانہ اقدامات کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت پیدا کی"۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ ایک فلم بنانے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بے مثال قربانی کی کہانی کو بڑی اسکرین پر لے کر آئے " ایک باپ کے طور پر میں اعتزاز کے والدین اور اس کے ساتھی طالبعلموں کا دکھ محسوس کرسکتا ہوں اور مجھے توقع ہے کہ سلیوٹ کے ذریعے اس میں کمی آئے گی"۔
شہزاد رفیق نے بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر اپنی فلم فرار پر کام روک دیا اور اب وہ سلیوٹ کی شوٹنگ کررہے ہیں جسے مارچ میں مکمل کرلیا جائے گا۔
عینی شاہدین کے بیانات
ہم ہنگو میں شہزاد رفیق کے ہمراہ تھے جہاں کے پی حکومت نے ہمیں پولیس کے دستے کے ہمراہ ابراہیم زئی گاﺅں بھیجا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو اعتزاز کے بڑے بھائی مجتبیٰ نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ہمیں گاﺅں کے ہائی اسکول کے قریب اس مقام پر لے گیا جہاں خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑایا تھا۔
بعد میں اعتزاز کے کزن شہزاد نے ہمیں اس دن کا آنکھوں دیکھا احوال سنایا " پانچ جنوری 2014 کے دن میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ اسکول کی جانب جارہا تھا جب ایک ازبک نظر آنے والے نوجوان شخص مسافروین سے اترا اور اسکول کی جانب بڑھنے لگا۔ ہمارے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ابراہیم زئی سے تعلق رکھتا ہے جو کہ ہمیں بہت عجیب لگا کیونکہ ہم نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر اس شخص نے اپنا بیان بدل لیا اور کہا کہ وہ کوہاٹ کا رہنے والا ہے"۔
خودکش بمبار نے اسی اسکول کا یونیفارم پہن رکھا تھا مگر اس کی ٹوپی مختلف تھی۔ اور جب اعتزاز کے کزن نے اپنا ہاتھ اسے سے ملانے کے لیے بڑھایا اور حملہ آور نے اپنے سیدھے ہاتھ میں موجود دھماکہ خیز مواد چھپانے کی کوشش کی تو جب شہزاد اور اس کے دوست کو احساس ہوا کہ یہ نوجوان درحقیقت کون ہے ج کے بعد یہ دونوں لڑکے اسکول کی جانب بھاگنے لگے۔
شہزاد بتاتا ہے " اعتزاز خودکش بمبار کے بالکل پیچھے تھا اور ہم نے اسے بھی خود کو بچانے کے لیے بھاگنے کے لیے کہا مگر اس کے برعکس وہ حملہ آور کی جانب تیزی سے بڑھا جس نے ایک پتھر اعتزاز کو مارا جو اسے لگا نہیں۔ اعتزاز نے اس کا تعاقب کیا اور اس سے گھتم گھتا ہوگیا اور پھر بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اس کے فوری بعد اساتذہ اور طالبعلم جائے وقوع پر پہنچے"۔
فلم پروڈکشن کا عملہ اس کے بعد ریاضی کے استاد حبیب علی سے ملا تاکہ اعتزاز کے بارے میں بطور طالبعلم معلومات اکھٹی کرسکے۔ ماسٹر حبیب نے بتایا کہ اعتزاز ایک اوسط درجے کا طالبعلم تھا جس میں جوش و جذبہ بہت زیادہ تھا اور وہ کبھی اپنے ساتھیوں کی جانب سے موٹو کہنے پر غصہ نہیں کرتا تھا " اس کے چہرے پر بس مسکراہٹ دوڑتی رہتی تھی"۔
شہزاد رفیق نے یہ تمام معلومات اپنے نوٹ پیڈ پر لکھ لی اور کچھ سوالات مجتبیٰ کو لکھ کر دیئے تاکہ وہ اعتزاز کی والدہ سے اس کے مشاغل، عادات، پسند ناپسند وغیرہ پوچھ کر بتاسکے۔
خاتون نے بتایا کہ اعتزاز ناشتے میں پڑاٹھے پسند کرتا تھے، جبکہ وہ فٹبال کا دیوانہ اور مارشل آرٹس فلمیں دیکھنا پسند کرتا تھا۔ اعتزاز کامیڈین عمر شریف کا بہت بڑا پرستار تھا۔
مجتبیٰ نے بتایا کہ دھماکے کو سن کر اس کی ماں بہت پریشان ہوگئی تھی " ہمیں وہ جگہ تو نظر آرہی تھی کیونکہ ہمارا گھر گاﺅں کے بالکل وسط میں ہے، مگر ہماری ماں کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوگیا تھا اور چیخنے لگی تھیں " لگتا ہے میرا اعتزاز زخمی ہوگیا ہے"۔
بعد ازاں پروڈکشن ٹیم نے اس میدان کا دورہ کیا جہاں اعتزاز کھیلا کرتا تھا، اس وقت وہاں ایک ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا جارہا تھا اور وہاں اعتزاز کے ساتھی کھلاڑیوں سے مزید حقائق بھی اکھٹے کیے گئے۔
ابراہیم زئی گاﺅں میں کام مکمل ہونے کے بعد آرمی انٹیلی جنس افسر سے ایک ملاقات شیڈول تھی جنھوں نے ہمٰں ضلع میں امن و امان کی صورتحال پر بریفننگ دی۔ انہوں نے معدد حقائق کا انکشاف کیا جیسے کس طرح بچوں کو دہشت گرد سرگرمیوں کی تربیت دی جاتی ہے۔
فوجی افسر نے ہنگو میں شوٹنگ کے حوالے سے فلم پروڈکشن ٹیم کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ یہاں ہر کچھ میل کے فاصلے پر سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹیں واقع ہیں اور حیرت انگیز طور پر ہر چیک پوسٹ پر دہشت گرد حملوں کا مقابلہ کرنے والی بہادر روحوں کی کہانی موجود تھی۔
ڈائریکٹر شہزاد رفیق کا منصوبہ ہے کہ سلیوٹ کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے گا تاکہ لولی وڈ اور پاکستان کا اچھا چہرہ سامنے لایا جاسکے۔ وہ مرکزی کاسٹ کا نام افشاءنہیں کرنا چاہتے مگر معروف فنکاروں کو کاسٹ ضرور کرنا چاہتے ہیں " میرا مجھ سے مسلسل رابطے میں ہے مگر وہ اب تک فلم کے کسی کردار میں فٹ نہیں ہوتی"۔