Dawn News Television

شائع 19 فروری 2015 12:00pm

شکست کا ذمہ دار پی سی بی ہے

ڈیئر پی سی بی!

میں پچھلے 20 سالوں سے پاکستان کرکٹ کا فین ہوں اور میں نے اس ٹیم کو ایک لاکھ بار اوپر اور دس لاکھ بار نیچے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے ہمیشہ اس ٹیم کی حمایت کی ہے، اور میچ فکسنگ، اقربا پروری، اور اسپاٹ فکسنگ کے تمام الزامات کے باوجود میں ہمیشہ اس ٹیم کا پرجوش حامی رہا۔

لیکن اب ایک طویل عرصے سے جو تنزلی ہم دیکھ رہے ہیں، اس نے میری اور میرے جیسے دوسرے پرستاروں کی تمام امیدوں کو ختم کر دیا ہے۔

آپ کی نااہل مینیجمنٹ شاید میرا خط پڑھے بغیر ہی پھینک دے۔ ویسے بھی پاکستان کرکٹ نامی اس پرکشش، کرپٹ، اور پیسہ بنانے کے سسٹم میں ایک فین کی حیثیت ہی کیا ہے۔ لیکن میں پھر بھی اپنے جذبات کا اظہار ضرور کروں گا۔

پڑھیے: پی سی بی حکام کہاں ہیں؟

مجھے یاد ہے 1990 کی دہائی میں اس ملک نے ایسے کرکٹر پیدا کیے، جو جنگجوؤں کی طرح میدان مار لینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ہاں کچھ خامیاں بھی تھیں اور کبھی کبھی سخت تر ٹیموں کے سامنے ہم شرمندہ بھی ہوتے تھے، لیکن ہمارے پاس کم بیک کرنے کی قابلیت بھی تھی، اور ہم نے زبردست کم بیک کیا بھی۔ مجھے یاد نہیں کہ 2000 سے پہلے ہم روایتی حریف انڈیا کی ٹیم کو کوئی بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔ لیکن تب ہی ان کی کرکٹ انفراسٹرکچر میں طویل المدتی انویسٹمنٹس نے اچھے نتائج پیدا کرنے شروع کیے۔

اور اس سب کے دوران پی سی بی حکام دولت سمیٹنے میں مصروف رہے۔

مجھے ہم سے زیادہ مضبوط پڑوسی ٹیم کے ہاتھوں شکست کھانے پر پریشانی نہیں ہے، بلکہ اس پر ہے کہ ہم نے کیسی شکست کھائی۔ ہم لوگوں نے پچھلے چار سالوں میں ذرا بھی بہتری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگ اب چار سال پہلے سے بھی زیادہ بری پوزیشن پر ہیں۔

اب یہ قابلِ پیش گوئی بنتا جارہا ہے، اور میرے جیسے کرکٹ کے فینز کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔

پچھلی دہائی میں جب بھی ہم لوگوں نے انڈیا کے خلاف کھیلا، ہمارے کھلاڑی خوفزدہ اور پریشر میں نظر آئے، جبکہ مخالف ٹیم نے ہمیں ہمیشہ ٹھنڈے انداز میں برِصغیر کی کسی اور ہلکی پھلکی ٹیم کی طرح کھیلا۔ اگر ہم لوگ انڈیا کو 200 رنز تک بھی محدود کر دیتے (ان کی زبردست بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے صرف ایک خواب)، تو بھی ہم 160 پر ڈھیر ہو جاتے۔ اور اگر ہم 'ماؤں بہنوں کی دعاؤں' کی بدولت جیت بھی جاتے، تو وہ بھی اس مقام پر ہوتا، جہاں ہمارے پاس صرف 4 گیندیں اور ایک وکٹ ہوتی۔ پچھلی پوری دہائی میں یہی ٹرینڈ رہا ہے، اور اب میں اس سے تنگ آ چکا ہوں۔

پی سی بی! آپ کی وجہ سے کرکٹ کے وہ فینز اب کرکٹ ناپسند کرنے لگے ہیں، جو کبھی رات کو 4 بجے میچ دیکھنے کے لیے اٹھا کرتے تھے۔

مزید پڑھیے: ورلڈ کپ میں کمزور ترین پاکستانی ٹیم

آپ بورڈ اور ٹیم مینیجمنٹ میں اپنے دوستوں کو تعینات کرتے ہیں، ٹیم مینیجمینٹ میں الٹی سیدھی حرکات جاری رکھتے ہیں، ٹیم میں کھلاڑیوں کی شمولیت یا انہیں نکالنے کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور حقیقی ہیروز سے مدد لینے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ پاکستان کرکٹ کو اپنا خاندانی بزنس سمجھتے ہیں جو کہ آپ کی ذاتی پسند ناپسند کے مطابق چلنا چاہیے۔

پاکستان انڈیا کے اس حالیہ میچ کو چھوڑ کر مجھے یاد نہیں کہ میں نے آخری بار کب ٹی وی کھول کر میچ لائیو دیکھا تھا۔ اب میں صرف انٹرنیٹ پر کچھ اسکور اپ ڈیٹس دیکھ کر گزارا کر لیتا ہوں۔

میں برسبین میں رہتا ہوں جہاں پاکستان دو ہفتے بعد زمبابوے کے خلاف کھیلنے والا ہے، اور مجھے یہ کہنے دیں کہ میں سستا ترین ٹکٹ خرید کر بھی میچ دیکھنے نہیں جانا چاہتا۔

شاید زندگی زیادہ مصروف ہو گئی ہے، یا شاید کرکٹ کے لیے میرا جنون ختم ہو گیا ہے۔ لیکن دونوں ہی صورتوں میں نقصان تو پاکستان کرکٹ کا ہی ہے۔

فیس بک پر پوسٹ کیے جانے والے اداس چہروں اور اسٹیٹس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ لوگوں نے ہم سے ہماری واحد اچھی چیز، کرکٹ، چھین لی ہے، اور اب یہ بالکل ہاکی کی طرح اندھیروں کا سفر کر رہا ہے۔

بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے، جب اسکینڈلز کے باوجود ہم لوگ فیلڈ میں ہماری ٹیم کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتے تھے۔ وہ وقت اب جا چکا ہے۔ میں اپنے ابو سے ہاکی کی کھوئی ہوئی عظمت کی کہانیاں سنتا ہوں تو امید کرتا ہوں کہ مجھے اپنے بچوں کو ایسی ہی کہانیاں نہ سنانی پڑیں۔

جانیے: کھلاڑیوں اور اسٹاف میں اختلافات کی تردید

مجھے امید ہے کہ آپ اس شمع کو بجھنے سے بچائیں گے جو ہر شکست کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر بجھنے کے قریب پہنچتی جا رہی ہے۔

شکریہ

فقط، ایک کرکٹ فین۔

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments