موبائل فون سموں کی تصدیق، ایک عذاب؟
کراچی کی مصروف ترین شاہراﺅں میں سے ایک راشد منہاس روڈ پر الہ دین پارک کے قریب ٹریفک جام ہونا غیر معمولی بات نہیں بلکہ یہاں کے معمولات کا حصہ ہے مگر جمعے کی شام ہمارے نوٹس میں گاڑیوں میں پھنسے رہنے کی اذیت کی ایک اور وجہ آئی۔
لوگوں کی طویل قطاریں ۔۔۔ مرد و خواتین، نوجوان اور بزرگ، بے شمار تنہا افراد کے ساتھ ساتھ متعدد خاندان یہ سب سڑک کے کنارے تین اسٹالوں پر لائن لگا کر کھڑے تھے۔
یہ قطار اتنی لمبی اور بے ہنگم انداز میں پھیلی ہوئی تھی کہ ٹریفک کی روانی پر اثرانداز ہورہی تھی۔
ہمارا تجسس ہمیں اس کی وجہ جاننے کے لیے وہاں لے گیا اور بہت جلد ہمیں معلوم ہوا کہ یہ وہ منظر ہے جو آج کل اس شہر بلکہ پورے ملک بھر میں نظر آرہا ہے یعنی موبائل فون کنکشنز کی بائیومیٹرک تصدیق۔
یہاں تین مختلف کمپنیوں کے ریٹیلرز نے عارضی اسٹالز قائم کررکھے تھے۔
حامد رضا کی قسمت نے خوب ساتھ دیا اور وہ اس پورے عمل میں کامیاب ہوگئے اور ہم نے جا دبوچا جس پر ان کا کہنا تھا " سب آسانی سے ہوگیا، اس میں کچھ بھی خاص نہیں تھا، ان ریٹیلرز نے مجھ سے میرا اصل شناختی کارڈ نمبر، موبائل فون نمبر لیا اور پھر میرے انگوٹھے کا نشان ایک ڈیوائس پر لیا"۔
ایک ایس ایم ایس کی آمد نے حامد کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کو مزید کشادہ کردیا " یہ دیکھیں یہ کمپنی کی جانب سے آنے والا ایک ایس ایم ایس ہے"۔
مگر متعدد افراد حامد رضا جیسے خوش قسمت نہیں ہوتے، محمد شجاع الدین کی درخواست مسترد ہوگئی کیونکہ ان کے انگوٹھے کا نشان لگتا تھا کہ نادرا کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں اور کچھ منٹ کی بحث کے بعد ان کے پاس واحد راستہ ایک رکشہ لے کر وہاں سے چلے جانا ہی بچا۔
شجاع الدین کے کنکشن کی تصدیق کے لیے مزید اقدامات کے حوالے سے ہمارے سوال پر ریٹیلر نے جواب دیا " ہم نہیں جانتے، ہوسکتا ہے کہ وہ اب نادرا کے پاس جائے اور نئے شناختی کارڈ کے لیے درخواست دے، ہمیں روزانہ ہی ایسے سینکڑوں کیسز کا سامنا ہوتا ہے اور ہمارے پاس اس بحث میں پڑنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا"۔
ہماری ریٹیلر سے بات چیت بمشکل دو منٹ ہی چلی مگر اس دورانیے کے دوران ہم نے ایک کے بعد ایک ایسے صارفین کو دیکھا جو اس کاﺅنٹر سے مایوسی سے اپنا سر ہلاتے ہوئے جارہے تھے۔
شجاع کے بعد شاکرہ ناصر پھر یوسف خان اور ان کے بعد سلیم انصاری، لگتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی نادرا کے بائیومیٹرک نظام میں رجسٹر نہیں۔
اب یہ سب نادرا سے رابطہ کریں گے۔
تاہم ریٹیلر کے مشورے پر سلیم انصاری کا ردعمل یہ تھا " نادرا سے کچھ ٹھیک کروانا ؟ یہ تو ناممکن ہے، مجھے اب موبائل فون کی ضرورت نہیں رہی بھائی میں اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں"۔
حکومت کی جانب سے سو ملین پری پیڈ موبائل فون کنکشنز کی قومی ایکشن پلان کے تحت بائیومیٹرک تصدیق کرانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ دہشتگردوں کو ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے روکا جاسکے اور اس وقت پانچوں سروس پروائڈر کمپنیاں موبی لنک، یوفون، ٹیلی نور، وارد اور زونگ سب اس کام میں مصروف ہیں اور ساٹھ ہزار سے زائد بائیومیٹرک ڈیوائسز ان کے فرنچائزز ، کسٹمر سروسز سینٹرز اور ریٹیلرز کے پاس استعمال کی جارہی ہیں۔
ایک بار جب یہ ٹاسک 26 فروری تک پہنچے گا تو توقع ہے کہ موبائل فون ڈیٹا درست ہوجائے گا مگر زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرانے والے صارفین اس مشکل طریقہ کار سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں۔
جیسے عبدالقدیر نے ریٹیلر کے سامنے نعرہ لگایا " مجھے ایک رسید چاہئے، آخر میں صرف ایک ایس ایم ایس پر کیسے اعتبار کرسکتا ہوں؟ اس وقت کیا ہوگا اگر مجھے کل غیرتصدیق شدہ سم استعمال کرنے پر پکڑلیا جائے گا؟ کیا میں ایس ایم ایس کو اپنے فون میں محفوظ رکھ سکتا ہوں جو کہ اس شہر میں کسی بھی وقت چھن سکتا ہے؟"
لگ بھگ ہر ایک نے اس کے نعرے پر توجہ نہیں دی اور اسے میری شکل میں ایک ہی فرد نظر آیا جس سے وہ اپنے دکھ کا اظہار کرسکتا تھا۔ عبدالقدیر کے پاس تین مختلف کمپنیوں کے کنکشنز ہیں جن میں سے دو نے تو اسے پہلے ایس ایم ایس بھیج کر کہا کہ اسے زحمت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے کنکشنز پہلے ہی تصدیق شدہ ہیں، مگر اگلے ہی دن حالات بدل گئے۔
اپنی شکایت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا کہنا تھا " اگلے روز انہوں نے ایک مختلف ایس ایم ایس بھیج کر مجھ سے کنکشنز کی تصدیق کرانے یا ان کے بلاک ہونے کا سامنے ہونے کا کہا، اب میں کیا کروں؟ کون سے ایس ایم ایس پر میں بھروسہ کروں؟ میں نے تو ریٹیلر سے بس یہ درخواست کی تھی کہ مجھے ایک اس طریقہ کار کی ایک رسید دیدے مگر اس نے انتہائی روکھے انداز سے کہا کہ مجھے کمپنی کے ایس ایم ایس پر انحصار کرنا ہوگا"۔
ریٹیلرز کی جانب سے سب کو بتایا جارہا ہے کہ یہ قانون ہے مگر ان میں بیشتر صارفین کو یہ نہیں بتاتے کہ بائیومیٹرک تصدیق کی سرکاری فیس کیا ہے۔ اس کے لیے حکومت نے دس روپے کا نرخ مقرر کیا ہے مگر بیشتر ریٹیلرز ڈبل پیسے لے رہے ہیں اور کچھ معاملات میں تو یہ رقم تین گنا بھی ہوجاتی ہے۔
موبائل فون کمپنیوں اور پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے متعدد اشتہارات کے باوجود موبائل فون کنکشنز کے غلط استعمال روکنے کے لیے کیا جانے والا اقدام مالی استحصال کا ذریعہ بن گیا ہے۔
کامران رشید نے اپنے اور دو بیٹیوں کے کنکشنز کی تصدیق پر نوے روپے خرچ کیے اور وہ حیران ہیں کہ آخر پی ٹی اے اور موبائل کنکشنز کمپنیاں زیادہ فیس چارج کرنے کو نظرانداز کررہے ہیں یا انہیں اس کی کوئی پروا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا " ایک اچھا کام برے انداز سے کیا جارہا ہے، آپ غیرقانونی رقم ادا کرکے موبائل فون کنکشن استعمال کرنے والے قانونی صارف بن رہے ہیں، یہ ریٹیلر سینکڑوں افراد کے سامنے اضافی فیس لے رہے ہیں جبکہ پی ٹی اے اور کمپنیوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ لوگوں کو اپنی شکایات کے ساتھ سامنے آنا چاہئے"۔
کامران رشید کی آواز اتنی اونچی تھی کہ پورا ہجوم اسے سن سکتا تھا مگر متعدد پھر بھی دس روپے کی بجائے تیس روپے ادا کررہے تھے۔
کامران رشید نے مزید کہا " آپ گھنٹوں قطاروں میں کھڑا کرکے لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں، مرد اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے ساتھ مجبور ہوکر آپ کی غلطی کو درست بنادیتے ہیں، مگر پھر کئی گھنٹوں بعد انہیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کے انگوٹھے کا تو نشان ہی دستیاب نہیں، آپ کے شناختی کارڈ درست نہیں اور آپ کو دس روپے کے کام کے لازمی طور پر 30 روپے ادا کرنا ہوں گے، کیا ہمیں اس بار ان لوگوں (پی ٹی اے اور موبائل کمپنیاں) کے خلوص پر اعتبار کرنا چاہئے ؟"
انہوں نے اپنے سوال کا جواب بھی خود ہی دے دیا " نہیں یہ ناممکن ہے"۔