Dawn News Television

اپ ڈیٹ 07 اگست 2015 11:54pm

مجھے گولی مت مارنا

شام گزشتہ چار سال سے خانہ جنگی سے دوچار ہے، اس جنگ نے شام کے معصوم بچوں کے دلوں کو کس قدر خوفزدہ کردیا ہے، اس کا ایک مظاہرہ یہ تصویر ہے، جس نے کروڑوں انسانوں کے دل کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔

جب فوٹوگرافر نے اپنے کیمرے کا رُخ اس کی جانب کیا تو اس معصوم بچی نے اس کو ہتھیار خیال کرتے ہوئے اپنے ہاتھ بلند کردیے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خوف اس کے چہرے پر پھیلا ہوا ہے۔

یہ ہوديا ہے، شام کی ایک عام سی بچی۔ شام میں ایسے ایک نہیں لاکھوں بچے ہیں، جو اس المناک جنگ سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔

یہ تصویر ترکی کے فوٹو گرافر عثمان سگرلی نے گزشتہ سال دسمبر شام کے ایک پناہ گزین کیمپ میں کھینچی تھی ۔جیسے ہی انہوں نے اس بچی کی تصویر لینے کے لیے کیمرے اٹھایا وہ سہم گئی۔ وہ کہتے ہیں’’اسے محسوس ہوا کہ یہ بندوق ہے اور اب گولی چلے گی۔ وہ ڈر گئی، اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور ہاتھ اٹھا دیے۔‘‘

یہ تصویر پہلی مرتبہ جنوری میں ترکی کے اخبار میں شایع ہوئی تھی۔ غزہ پٹی کی فوٹو جرنلسٹ نادیہ ابو شبان نے جب اسے گزشتہ منگل کو ٹوئیٹ کیا تو یہ پوری دنیا میں پھیل گئی۔

بیشتر لوگ اس تصویر کو دیکھ کر جذباتی ہو گئے، اور ’میں رو پڑی‘،’یقین نہیں ہو رہا‘، ’انسانیت ہار گئی‘ جیسے تبصروں کے ساتھ اس کو پوسٹ کیا گیا۔

اس بچی کا نام ہودیا ہے، وہ ابھی صرف چار برس کی ہے۔ شام کے غرب وسطی علاقے کے ایک شہر حماۃ میں ہونے والے بمباری میں اس کے والد ہلاک ہوگئے تھے۔ ترکی کی سرحد کے ساتھ وہ اپنی والدہ اور تین بہن بھائیوں کے ہمراہ ایک پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہے۔ اس کا گھر یہاں سے تقریباً 150 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔

شام میں نقل مکانی پر مجبور ہونے والے ہزاروں افراد نے پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ جنگ کا شام کے لوگوں پر کیا اثر ہے یہ بڑوں سے زیادہ بچوں کی حالت سے ظاہر ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کے مطابق شام میں خانہ جنگی کی وجہ سے اپنے خاندان کے ہمراہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے بچوں کی تعداد 10 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔.

2011 میں صدر اسد کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک 17 لاکھ افراد کا بطور پناہ گزین اندراج کیا جاچکا ہے۔

Read Comments