تاریخی تعلیمی ادارے کی بقاء کی جنگ
تاریخی تعلیمی ادارہ جو بقاءکی جنگ لڑنے میں مصروف
ایک زمانے میں بہترین تعلیمی معیار کا مرکز اور راولپنڈی کے رہائشی مسلمانوں کے اتحاد کی علامت سمجھے جانے والا لیاقت باغ کے بالمقابل مری روڈ پر واقع 129 سال پرانا اسلامیہ ہائی اسکول اب اپنی زمین کو قبضہ مافیا سے بچانے اور بہترین تعلیمی معیار کے ادارے کی ساکھ کی بحالی کی جدوجہد کررہا ہے۔
راولپنڈی کی مسلم برادری نے 1885 میں یہ محسوس کیا تھا کہ انہیں ایسے تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے جہاں عربی اور اسلامی تعلیم مسلم طالبعلموں کو فراہم کی جاسکے۔
متعدد مسلم فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے متحد ہوکر شہر کے مسلمانوں کے لیے ایک تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی، بوہرہ برادری کے شیخ مامون جی نے اسکول کی تعمیر کے لیے 42 کینال زمین عطیہ کی جبکہ عمارت کی تعمیر کے لیے بھی عطیات جمع کیے گئے۔
اسکول کے ایک بزرگ استاد اعجاز کھوکھر نے ڈان کو بتایا کہ عطیات کے لیے ایک باکس بری امام کے مزار پر رکھا گیا جہاں پورے برصغیر سے مسلمان آتے تھے۔
ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1886 میں اسکول میں کلاسز کا آغاز ہوگیا۔ 1934 میں قائداعظم محمد علی جناح نے اسکول کا دورہ کیا اور گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول کے میدان میں ایک عوامی جلسے کا انعقاد کیا، جبکہ فاطمہ جناح اور بیگم رعنا لیاقت بھی اکثر اسکول کا دورہ کرتی رہتی تھیں۔
یہ اسکول ایک ممتاز تعلیمی ادارے کے طور پر جانا جاتا تھا اور یہاں سے ڈگری لے کر نکلنے والے طالبعلم عملی زندگی میں آکر قابل احترام سیاستدان، ججز، فوجی اور سویلین افسران، ڈاکٹر اور انجنیئرز بن کر ابھرے۔
تاہم گزشتہ تیس برسوں کے دوران یہ تاریخی ادارہ اپنی اہمیت سے محروم ہوتا چلا گیا اور اس کی زندگی کے بیشتر حصے پر قبضہ مافیا قابض ہوگئی۔
اسکول کی عمارت اب خستہ حال ہے اور اس کے ایک حصے کی چھت منہدم ہوچکی ہے اور مرکزی عمارت کی دیواروں پر دراڑیں پڑی ہوئی ہیں حالانکہ یہاں اب بھی سات سو سے زائد طالبعلم روز کلاسز میں آتے ہیں۔
کچھ برس قبل سابق رکن قومی اسمبلی ملک شکیل اعوان پنجاب حکومت سے کچھ فنڈز لینے میں کامیاب رہے اور اسکول کے احاطے میں ایک نئے بلاک کی تعمیر ہوئی تاہم یہ نئی تعمیرات اسکول میں بڑھتے طالبعلموں کی تعداد کے لیے کافی ثابت نہیں ہوئی۔
اسکول کے پرنسپل عمران قریشی بتاتے ہین " 42 کینال پر پھیلا اسکول اب سولہ کینال تک سکڑ گیا ہے، مسجد سے ملحقہ زمین بھی اسکول سے منسلک تھی مگر مین مری روڈ پر مہنگی زمین ہونے کے باعث اس پر تجاوزات قائم ہوچکی ہیں، ہم نے عدالتوں سے بھی رابطہ کیا مگر مقدمات تاحال زیرالتواءہیں"۔