نقطہ نظر

کامیڈی کا گرتا معیار

آج کل کے پاکستانی کامیڈی ڈرامے کسی ایسی دنیا کے کرداروں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا

سینئر ڈرامہ ایکٹر آغا وحید کہتے ہیں، "خدا کی قسم آج کل ٹی وی پر کامیڈی دیکھ کر دل ہنسنے کو نہیں رونے کو چاہتا ہے"-

آغا صاحب کا شکوہ کسی حد تک ٹھیک بھی ہے- اگر ہم پی ٹی وی کے زمانے کی کامیڈی پر نظر ڈالیں تو ٹال مٹول، الف نون، ففٹی ففٹی، آنگن ٹیڑھا، سونا چاندی اور خواجہ اینڈ سنز جیسے ہمیشہ ذندہ رہنے والے ڈرامے نظر آتے ہیں جبکہ پرائیوٹ چینلز کے آنے کے بعد جو کامیڈی ڈرامے مشہور ہوئے ان میں سب سیٹ ہے، نادانیاں اور بلبلے سر فہرست ہیں لیکن ان کی کامیڈی کا معیار ففٹی ففٹی اور آنگن ٹیڑھا سے کہیں پست ہے-

شعیب ہاشمی کا ٹال مٹول تو مجھے یاد نہیں لیکن کمال احمد رضوی صاحب کا الف نون اچھی طرح یاد ہے- کمال صاحب مزاح برائے مزاح نہیں لکھتے تھے- ان کے جملوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی سیاسی یا سماجی طنز چھپا ہوتا تھا- جملے ہی کیوں، ان کی تو پوری قسط کا پلاٹ ہی معاشرے میں پائی جانے والی بدعنوانی کے منہ پر تھپڑ ہوتا تھا- چاہے وہ کوئی انگلش میڈیم اسکول ہو یا کسی بلڈر کا آفس- کمال صاحب کا نشانہ معاشرے میں پائے جانے والا بگاڑ ہی ہوتا تھا-

آج کل کے کامیڈی ڈرامے، جنہیں حرف عام میں 'سٹ کام' کہا جاتا ہے، ایک ایسی دنیا کے کرداروں پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے- ہر قسط کا پلاٹ فرضی اور گڑھا ہوا ہوتا ہے- جس کا مقصد ڈرامے میں بلا مقصد کا مزاح پیدا کرنا ہے-

ففٹی ففٹی اس دور کا ڈرامہ ہے جب ملک پر ایک آمر ضیاالحق کی حکومت تھی اور میڈیا پر بے حد پابندیاں تھیں، خاص کر سرکاری میڈیا پر- پھر بھی شعیب منصور اور انکی ٹیم مذاق مذاق میں ایسی بات کرجاتے تھے جو بڑے بڑے دانشور اپنے کالم میں لکھتے ہوئے گھبراتے تھے-

مثال کے طور پر ففٹی ففٹی کا مشہور ٹریفک سارجنٹ (اسماعیل تارا) جو معاشرے میں موجود کرپشن کی منہ بولتی تصویر تھی- ایک اور خاکے میں دکھایا گیا کہ پولیس والے ایک گاڑی کی خوب اچھی طرح تلاشی لیتے ہیں اور اسے آگے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں، کیمرہ دکھاتا ہے کہ اسی گاڑی کی چھت پر ایک پوری توپ فٹ تھی-

ایک اور خاکے میں دکھایا جاتا ہے کہ چند سائنسدان ایک انسانی کھوپڑی کا جائزہ لے رہے ہیں لیکن کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے- وہاں پر موجود ایک پولیس کا سپاہی (آغا وحید) وہ کھوپڑی لے جاتا ہے اور تھوڑی دیر بعد لے کر آتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ کھوپڑی قلوپطرہ کی ہے- سائنسدان حیرت سے پوچھتے ہیں کہ اس نے یہ کیسے معلوم کیا؟ وہ بتاتا ہے کہ دو تھپڑ سیدھے اور دو تھپڑ الٹے مارنے پر کھوپڑی نے خود سچ اگل دیا- مقصد یہ تھا کہ پولیس والے مردے سے بھی اپنی مرضی کا بیان اگلوا لیتے ہیں-

خواجہ اینڈ سنز اور سونا چاندی، وہ کامیڈی ڈرامے تھے جن کے اندر ہمیں لاہور نظر آتا تھا- لاہور کے حقیقی کردار نظر آتے تھے- اب جب کہ کامیڈی ڈراموں کا بڑا کام لاہور میں ہو رہا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ کسی بھی ڈرامے میں ہمیں لاہور کے رنگ نظر نہیں آتے-

میں اپنے لاہوری دوستوں کو مشورہ دوں گا کہ کامیڈی ڈرامہ بنانے کے لئے کسی امریکن یا انگلش سٹ کام کی نقل کرنا ضروری نہیں- لاہور، کرداروں سے مالامال شہر ہے- ذرا اپنے آس پاس نظر ڈالئے، آپ اب بھی بہترین کامیڈی تخلیق کر سکتے ہیں-

راقم نے کچھہ عرصے پہلے ہم ٹی وی کے لئے "پرفیوم چوک" کے نام ایک سوپ لکھا تھا- جس میں کوشش تھی کہ کراچی اور اس کے کرداروں کی سچی عکاسی کی جائے- پورے ملک کی عوام نے اس ڈرامے کو خوب سراہا-

نیوز چینلز پر چلنے والے کامیڈی پروگرامز جنہیں (پولیٹیکل سیٹائر) کہا جاتا ہے، یکسانیت کا شکار ہوچکے ہیں- "ہم سب امید سے ہیں" دس سال سے آن ائیر ہے اور آپ کو شاید ہی اس کا کوئی خاکہ یاد ہو، جبکہ ففٹی ففٹی کے سارے خاکے آپ کو اب بھی ازبر ہونگے-

"بنانا نیوز" والے چوہدری برادران، جو اس سے پہلے آج ٹی وی پر فور مین شو کرتے تھے، گیٹ اپ سے باہر نہیں آسکے- وہ آج بھی وہی چیزیں کر کے لوگوں کو ہنسانے کی ناکام کوشش کر رہے ہوتے ہیں جو آج سے پانچ سال پہلے کیا کرتے تھے-

ان کا طریقہ کار یہ ہے کہ شوٹ سے ایک گھنٹے پہلے اسکرپٹ لکھا جاتا ہے، جو پوائنٹرز پر مبنی ہوتا ہے- پرفارمرز ان پوائنٹرز کو پڑھہ کر پورا پروگرام امپرووائز کرتے ہیں- سرکار تھوڑی سی محنت کر لیجئے- محنت آپ کو کچھ دے کر ہی جائے گی، لے کر نہیں جائے گی-

آفتاب اقبال کا پروگرام "خبرناک" کسی حد تک مزاح پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے لیکن وہ صرف بھانڈوں کی سطحی جگت بازی ہوتی ہے جو ایک دوسرے کی شکلوں کے بارے میں کر رہے ہوتے ہیں- پروگرام اچھا ہے، لیکن صرف پنجاب میں دکھایا جائے تو بہتر ہے-


خرم عباس

لکھاری نے پاکستان کے اسٹریٹجک معاملات کا تجزیہ کرتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔