نقطہ نظر

پکوان کہانی : کیک رسک

کیک رسک الزبتھ اول کے بحری رسد کے ترکوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایسے بہترین ہوتے جو طویل تر بحری سفر میں بھی خراب نہ ہوتے۔

اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کیک رسک گھر میں بھی بیکری انداز میں تیار کیے جاسکتے ہیں تو میں اپنے بچپن میں روزانہ ہی امی کو انہیں بنانے کے لیے مجبور کرتی۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے یہ تب تک معلوم نہیں ہوا، جب ایک ہفتہ قبل میرا چھ سالہ بیٹا اسکول سے آکر کہنے لگا کہ وہ 'کیک رسک اور چائے' چاہتا ہے۔ میں اس کی جانب سوالیہ انداز سے دیکھنے لگی جس پر اس نے کہا 'اگر وہ ہمارے پاس نہیں تو کیا ہم انہیں بنا سکتے ہیں؟'

تو میں نے اپنی ایک سہیلی، جو کسی بیکر سے کم نہیں، کو فون کیا اور اس سے پوچھا کہ کیا گھر میں کیک رسک تیار کرنا ممکن ہے۔ اس نے قہقہہ لگایا اور کہا "بالکل، تمہارا کیا خیال ہے کہ بسکوٹی اور کیک کہاں سے آئے ہیں، کیا تم بسکوٹی کے لیے میرے اطالوی نانا کی ترکیب چاہتی ہو یا کیک رس کے لیے میری پاکستانی دادی کا طریقہ؟"

آپ کے خیال میں میرا جواب کیا تھا؟

میری تحقیق کے مطابق قدیم یورپ میں باسی روٹی کھانا معمول تھا۔ رومن سلطنت کے فوجیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہمراہ سخت روٹی جنہیں بسکوکٹس کہتے تھے، رکھتے تھے، جس کا لغوی معنی 'دو بار پکایا گیا' ہے۔

برصغیر کے کیک رسک ممکنہ طور پر ان تاریخی بسکٹوں کی نسل ہی تعلق رکھتے ہیں۔ کھانوں کی تاریخ پر نظر رکھنے والے ماہرین بتاتے ہیں کہ رسک نام کے کھانوں کا طریقہ استعمال الزبتھ اول کے عہد میں سامنے آنا شروع ہوا۔

برِصغیر میں کیک رس کے نام سے مشہور اس سوغات کا اصل نام کیک رسک ہے۔ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق لفظ 'رسک' سال 1595 سے تعلق رکھتا ہے جب اس کا حوالہ دو بار پکائی گئی روٹی کے لیے دیا جاتا تھا۔

الان ڈیوڈسن ' The Oxford Companion to Food ' میں بتاتے ہیں "رسک روٹی کی وہ قسم ہے جو شکر، انڈے اور مکھن سے گندھے ہوئے آٹے سے تیار کی جاتی ہے۔ ان کی ساخت سلنڈر یا ڈبل روٹی کی جیسی ہوتی ہے جسے پکانے کے بعد ٹھنڈا کرکے ٹکڑے کیے جاتے ہیں اور پھر کم آنچ پر اتنا خشک کیا جاتا ہے کہ وہ سخت ہوجاتی ہے۔ رسک میں پانی کی مقدار بہت کم ہوتی تھی اور انہیں کافی عرصے تک سنبھال کر رکھا جاسکتا ہے۔ جدید بسکٹوں کی بنیاد کی حیثیت رکھنے والے قرون وسطیٰ کے رسک کو پانِس بسکوکٹس کے نام سے جانا جاتا تھا، جس کا مطلب ہوتا دو بار پکائی جانے والی روٹی، جنہیں سمندر میں بحری جہازوں اور افواج کے لیے استعمال کیا جاتا۔"

وہ مزید بتاتے ہیں "متعدد ممالک میں ایسی روٹیاں پائی جاتی ہیں جو رسک سے مماثلت رکھتی ہیں۔ اب وہ چاہے سادی ہوں جیسے اطالوی بروشیٹا، یا میٹھی قسم (جیسے تقسیم سے قبل کے ہندوستان کے کیک رس) تاہم ان میں دیگر اشیاء بھی شامل کیے جاتے جیسے مصالحہ جات (الائچی، دارچینی، جائفل) یا نٹس وغیرہ۔

کہا جاتا ہے کہ جدید چھوٹے کیک (کوکی کیک) کی اولین قسم ساتویں صدی ایران میں سامنے آئی تھی، اس وقت وہ دنیا کے ان چند خطوں میں سے ایک تھا جہاں شکر کی کاشت ہوتی تھی جبکہ دوسرا خطہ ہمارا اپنا برصغیر تھا۔

شکر ایران سے پھیلنا شروع ہوئی اور پھر بحیرہ روم کے مشرقی علاقوں اور عرب علاقوں تک پہنچ گئی۔ پھر جب مسلمانوں کے اسپین فتح کرنے، اور صلیبی جنگوں کے بعد مصالحوں کی تجارت کو فروغ ملا، اور ہندوستان، عرب، اور ایران کی پکانے کی تراکیب اور اجزاء شمالی یورپ تک پھیلنا شروع ہوئیں۔ تو ہم آسانی سے تصور کرسکتے ہیں کہ موجودہ عہد کے کیک ایشیاء سے سفر کرکے یورپ پہنچے اور پھر واپس ایشیاء آئے جیسے انہیں یورپ سے درآمد کیا گیا ہے۔

ایک مضمون ' How Sweet It Was: Cane Sugar from the Ancient World to the Elizabethan Period ' میں برانڈی اور کورٹینی پاورز بتاتے ہیں "510 قبل مسیح کے عہد میں ایرانی شہنشاہ دارا کے بھوکے سپاہی دریائے سندھ کے قریب تھے، جب انہوں نے ایسے سرکنڈے دیرافت کیے جو مکھیوں کے بغیر شہد پیدا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایشیائی گنے سے یہ اولین تعلق زیادہ متاثر کن نہیں تھا، تو اسے نظرانداز کردیا گیا اور اسے پھر 327 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے دوبارہ دریافت کیا، جس نے اسے ایران کے ذریعے اپنی ثقافت میں پھیلا دیا اور اسے بحیرہ روم کے خطے میں متعارف کروایا۔ یہ درمیانے عہد میں شکر اور (کیک) پراڈکٹس کی ابتدا میں سے ایک ہے"۔

تاہم کیک رسک الزبتھ اول کے بحری رسد کے ورثے میں سے ایک ہے۔ دو بار پکائی گئی روٹی کے یہ چھوٹے ٹکڑے ایسے بہترین ہوتے کہ طویل تر بحری سفر میں بھی خراب نہ ہوتے۔ ان کا اولین حوالہ ڈریک کے بحری سفر نامے میں سامنے آیا جو 1595 میں تحریر کیا گیا 'سفر کے دوران ایک شخص کو سات یا آٹھ ٹکڑے بسکٹ یا رسک بطور رسد فراہم کیے جاتے۔'

جدید اور زیادہ ریفائن کیک رسک ایسے سلائس کیک ہیں جنھیں دوبارہ پکایا جاتا، کرکرا پن لا کر خشک کیا جاتا، اور یہ اٹھارہویں صدی کے وسط سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان سخت مگر ذائقے دار کیکس سے چائے کے وقت لطف اندوز ہوا جاتا اور یہ شام کی چائے یا دودھ میں ڈبو کر کھانے کے لیے مثالی تھے۔ انہیں (ان کی جدید قسم میں) برصغیر میں انگلینڈ سے دوبارہ متعارف کروایا گیا، جہاں انہیں جہاز کے مسافروں کو پیش کیا جاتا۔

کچھ تاریخ دانوں کے خیال میں رسک کی تخلیق گھر کے باورچیوں کی بنیادی ضرورت تھی تاکہ وہ روزانہ آٹا گوندھنے کی تکلیف سے بچ سکیں اور ایسی روٹی تیار کرسکیں جو زیادہ طویل عرصے تک قابل استعمال ہو۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے رسک ایک بازنطینی بیکر نے تیار کیے تھے۔

جب میرا کیک رسک بنانے کا وقت آیا تو میں نے اپنی اطالوی پاکستانی دوست سے رابطہ کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نتیجہ ذائقے دار اور شام کے لیے بہترین کیک رسک کی صورت میں سامنے آیا، جو چائے کے ساتھ کھانے چاہیئں۔ اب یہ ترکیب میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کررہی ہیں۔

اجزاء

دو کپ آٹا

چھ انڈے

225 گرام مکھن

دو چائے کے چمچ ونیلا ایسنس

تین چائے کے چمچ بیکنگ پاﺅڈر (لیول)

آدھا چائے کا چمچ نمک

سوا کپ پاﺅڈر چینی

اورنچ فوڈ کلرنگ

طریقہ کار

اوون کو 350 ڈگری فارن ہائیٹ پر چلادیں۔ مکھن اور انڈوں کو کسی کیک مکسر میں ڈالیں۔ پھر اس میں شکر اور ونیلا کو شامل کرکے مکس کرلیں۔ اس کے بعد تمام خشک اجزاء اور فوڈ کلر کو شامل کرکے مکس کریں۔ ایک بار جب کیک کا مکسچر تیار ہوجائے تو اسے 8x8 انچ پین میں ڈال کر 55 منٹ تک پکائیں۔

جب کیک تیار ہوجائے تو اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے رکھ دیں اور اس کے بعد ٹکڑے کرلیں، انہیں دوبارہ اوون میں رکھ کر 300 ڈگری فارن ہائیٹ پر بیس منٹ تک پکائیں۔ پھر ٹھنڈا اور سخت ہونے دیں، جس کے بعد انہیں چائے، دودھ یا کافی کے کپ کے ساتھ مزہ لے کر کھائیں۔ چاہے تو کسی ائیرٹائٹ برتن میں رکھ کر اسٹور بھی کیا جاسکتا ہے۔


مزید پکوان کہانیوں کے لیے کلک کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

بسمہ ترمزی

لکھاری ڈان کی سابق اسٹاف ممبر ہیں اور اب ایک فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔

انہیں کھانوں، موسیقی اور زندگی کی عام خوشیوں سے دلچسپی ہے۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس food_stories@yahoo.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔