انتخابی دھاندلی کی تحقیقات اگلے ہفتے مکمل ہونے کا امکان
اسلام آباد : انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن نے عندیہ دیا ہے کہ 2013 کے عام انتخابات میں ' منظم بے ضابطگیوں' کے الزامات کی تفتیش کا عمل اگلے ہفتے تک مکمل کرلیا جائے گا۔
بدھ کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین ججز پر مشتمل کمیشن نے اپنی کارروائی کے اختتام پر تمام سیاسی جماعتوں کے وکلاءکو اگلے ہفتے موجود رہنے کی ہدایت کی کیونکہ وہ بغیر کس التواءکے اپنی تحقیقات کا اختتام کرنے کا خواہشمند ہے۔
آٹھ جون وہ تاریخ ہوگی جب عدالتی افسران 11 مئی 2013 کے انتخابات کے حوالے سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ہر حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنز کے سیل بند پولنگ بیگز سے لیے جانے والے فارم 15 کے نقول کی رپورٹس جمع کرائیں گے۔
یہ بیگز ٹریژریز (ہر ضلع کے) میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے رکھے گئے ہیں۔ فارم 15 میں مسترد شدہ یا غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز کو نکال کر ووٹوں کی گنتی کا حساب رکھا جاتا ہے۔
کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی کارروائی پیر سے لے کر پورے ہفتے صبح ساڑھے 11 بجے شروع کرے گا۔
کمیشن نے ای سی پی کے گواہ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن (پی ایس پی سی) کے جنرل منیجر نوید اے خواجہ کے گواہ کو ڈراپ کرتے ہوئے ای سی پی کے وکیل سلمان اکرم راجا اور پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ کی جرح کے دوران ریکارڈ کرائے گئے بیان کو اسکریپ کرنے کی ہدایت کی۔
کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب عبدالحفیظ پیرزادہ نے اس طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے سماعت کے دوران کہا کہ گواہ نے نہ صرف تسلیم کیا ہے کہ پی ایس پی سی نے مخصوص حلقوں کے لیے بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ 26 اپریل 2013 کو مکمل کرلی تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ انہیں اسی تاریخ کو حلقوں کے لیے بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کے لیے نظرثانی شدہ فہرست ملی۔ اس کے ساتھ ساتھ گواہ نے جس دستاویز کا حوالہ دیا اس پر کسی کے دستخط اور دستی تحریر نہیں، جس سے مخصوص تخمینے کا عندیہ ملتا ہے جس میں مختلف شفٹوں میں بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ پر توجہ مرکوز کی گئی۔
سماعت کے دوران عبدالحفیظ پیرزادہ نے قبل ازیں مسلم لیگ ق کی جانب سے ڈاکٹر خالد رانجھا کی ایک درخواست کا حوالہ بھی دیا جس میں کم از کم چھ ریٹرننگ افسران کی طلبی کا ذکر کیا گیا تھا اور درخواست کی کہ کمیشن اس تنازعے کے خاتمے کے لیے اس درخواست پر غور کرے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا " مستقبل کے انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کمیشن کو نیچے تک جانا چاہئے"۔
تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ریٹرننگ افسران کو طلب کرنا کچھ پیچیدہ عمل ہوسکتا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر آر اوز کی جانب سے انتخابی نتائج کو مرتب کرنے سے قبل الیکشن لڑنے والے امیدواروں کو نوٹسز جاری کیے جاتے ہیں۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے یاد کیا کہ عام طور پر نوٹسز کو نتائج مرتب کرنے سے قبل نوٹس بورڈ پر لگادیا جاتا ہے۔
عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ آر اوز کئی بار اس طریقہ کار کو نظرانداز کردیتے ہیں جو کہ انتخابی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔