پاکستان

کرائے پر تحفظ؟

ایسا نظر آتا ہے کہ لوگ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر اس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں جہاں تک ان کی جیب اجازت دے۔

کیا آپ کے دشمن ہیں؟ کیا آپ کو خطرات کا سامنا ہے اور گھر سے نکلنے میں ڈر لگتا ہے ؟ تو پھر اب زیادہ فکرمند نہ ہو اور آگے بڑھے یا ڈرائیو کرے وہ بھی بغیر کسی ڈر کے، کیونکہ اب آپ کو بلٹ پروف اور بکتربند گاڑیوں کی پیشکش کی جاتی ہے۔

کوئی گولی یا بم ان محفوظ گاڑیوں کے اندر سفر کرنے والے مسافروں کو نقصان نہیں پہنچا سکتے اور محفوظ سفر کرسکتے ہیں۔ باہر سے دیکھنے میں وہ دیگر لگژری چار پہیوں جیسی گاڑیوں جیسی ہی نظر آتی ہیں مگر اندر سے ان کی چھت، فرش، دروازے، ونڈ شیلڈ اور کھڑکیاں سب انہیں بلٹ پروف اور بکتر بند بناتی ہیں۔

درحقیقت یہ بکتر بند گاڑیاں ایک قسم کی ڈبل کیبن ہیں جس کے دونوں حصے انہیں بم پروف بناتے ہیں، اس کی کھڑکیاں عام طور پر نیچے نہیں کی جاسکتین جس کی وجہ ان کی موٹائی ہے جس کے باعث یہ اسٹیل جیسی لگتی ہیں۔

ملک میں ٹارگٹ کلنگ میں حالیہ اضافے خاص طور پر کراچی میں متعدد ایجنسیاں جو سیکیورٹی فراہم کرتی ہیں، نے ایسی گاڑیاں کرائے پر دینے کی پیشکش کی ہے۔

تاہم کیپٹن ندیم خان جو ایسی ہی ایک کمپنی کے لیے کام کرتے ہیں، وضاحت کرتے ہیں " یہ کوئی رینٹ اے کار سروس نہیں، صرف سیکیورٹی کمپنیاں ہی اس کا اختیار رکھتی ہیں یہاں تک کہ ہم بھی اس قسم کی گاڑیاں اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، ہم سہولت کار کے طور پر کام کرتے ہیں"۔

ان کے ساتھی وقاص خان نے مزید بتایا " ان گاڑیوں کا انتظار ہمارے لیے پاکستان آرمری نے کیا، اگرچہ یہ گاڑیاں کرائے پر دی جاتی ہیں مگر کوئی رینٹ اے کار سروس اس طرح کا کام نہیں کرسکتی کیونکہ یہ ایک مکمل پیکج ہے یعنی گاڑی، ڈرائیور اور ایک مسلح محافظوں کے ساتھ اسکورٹ گاڑی"۔

بہت زیادہ وزنی ہونے اور ایک عام گاڑی سے دوگنا وزن کی حامل یہ گاڑیاں چلانے کے لیے ماہر ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سفارش بھی کی جایت ہے کہ اسے پہاڑی علاقوں میں نہ چلائے۔

محافظوں والی اسکورٹ گاڑیاں اس وقت مسافروں کو کور اور تحفظ فراہم کرتی ہے جب وہ کسی گاڑی کے اندر بیٹھ رہے ہو یا باہر نکل رہے ہو۔

اور یہ ایک مہنگا پیکج ہے، ایک بلٹ پروف یا بکتر بند گاڑی کا بارہ گھنٹوں کا کرایہ ایک لاکھ روپے ہے۔

اس طرھ کی کسی گاڑی میں مسافروں ایک ایسا تجربہ ہوتا ہے جس کے دوران مسافروں کو تمباکو نوشی کی اجازت نہیں ہوتی کیونکہ یہ گاڑی سیل بند ہوتی ہے، یہاں تک کہ جب کھڑکیاں نیچے کی جاتی ہیں تو وہ بھی چار انچ سے زیادہ نیچے نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ایک کھڑکی نیچے کرنے سے مسافر خطرے کی زد میں آسکتا ہے۔

اس طرح کی گاڑی کے اندر ہتھیار لے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ مسافر محفوظ ہوتے ہیں جبکہ ہتھیار لے جانے کی اجازت دے کر دیگر کی زندگیوں کو غیر محفوظ نہیں بنایا جاسکتا۔

ان گاڑیوں کو اپنے پاس رکھنا کافی مہنگا ہوتا ہے کیونکہ ان کے سسپنشن میں تبدیلی کی بہت جلد ضرورت پڑتی ہے جبکہ ہر ماہ اس کی سروس و مرمت کی جاتی ہے تاکہ کسی بھی مسئلے کو دیکھا جاسکے۔

یہاں تک کہ ان سب اقدامات کے باوجود ان گاڑیوں کی زندگی صرف پانچ سے چھ سال ہوتی ہے۔

اس میں تحفظ کے لیول کے حوالے سے بھی درجہ بندیاں موجود ہیں جیسے بی سکس اور بی نائن وغیرہ تاہم اس کے باوجود یہ سو فیصد بلٹ پروف نہیں ہوتیں کیونکہ کسی ایک ہی جگہ متعدد بار فائرنگ کے نتیجے میں گولی کے اندر آنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

بی نائن گاڑیاں بم پروف ہونے کے ساتھ بکتر بند ہوسکتی ہیں، اگرچہ ان میں سے بیشتر یو اے ای سے آئی ہیں جبکہ مختلف کمپنیاں جیسے مرسیز اور رینج روور نے بھی انہیں تیار کیا ہے، جنھیں عام ماڈلز لے مقابلے میں دوگنا قیمت پر فروخت کیا جتاا ہے۔

مہنگی سروس کے باعث اس طرھ کی گاڑیاں عام طور پر غیر ملکی جیسے پیٹرولیم کمپنی نے سنیئر ملازمین یا اقوام متحدہ کے ورکرز وغیرہ کی ملکیت یا کرائے کے دستیاب ہوتی ہیں۔

پاکستان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں جو اسے پھلتے پھولتے کاروبار میں تبدیل کرسکیں۔

جب یہ پوچھا گیا کہ مزید دہشتگردانہ حملے اسے بہترین کاروبار کی شکل دے سکتے ہیں تو کیپٹن ندیم نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا " اسے صرف وہی لے سکتا ہے جو اس کا خرچہ اٹھا سکے، تو ہر ایک کو پہلے امیر ہونا ہوگا"۔

اس کے علاوہ ایسی معلومات بتانے کا بھی کوئی راستہ نہیں جو اس طرح کی کسی گاڑی کو مجرمانہ یا دہشتگردی کے لیے استعمال کرے، یہاں حکومت سامنے آتی ہے۔

کیپٹن ندیم وضاحت کرتے ہین " صوبائی محکمہ داخلہ اس طرح کی گاڑیوں کی ملکیت کے لیے خصوصی لائسنسز جاری کرتا ہے، ہر بلٹ پروف یا بکتر بند گاڑی کو صوبائی حکومت سے این او سی درکار ہوتی ہے۔ مجرموں یا دہشتگردوں کے ہاتھوں تک اس طرح کی گاڑی جانے سے روکنے کے لیے آج کل اس طرح کے سرٹیفکیٹس محتاط نظرثانی کے بعد دوبارہ جاری کیے جارہے ہیں"۔

زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے مگر ایسا نظر آتا ہے کہ لوگ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر اس حد تک جانے کے لیے تیار ہیں جہاں تک ان کی جیب اجازت دے۔