پاکستان

سات آر اوز عدالتی کمیشن میں طلب

کمیشن نے اپنے ریمارکس میں کہا " گواہوں کی جانب سے سامنے آنے والے الزامات پر متعلقہ آر اوز سے جرح کی ضرورت ہے"۔

اسلام آباد : مسلم لیگ ق کے وکیل عام انتخابات کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن میں آخر کار اپنے حق میں ایک فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور کمیشن نے 2013 کے عام انتخابات میں پنجاب کے حلقوں میں انتکابی عمل کرانے والے سات ریٹرننگ افسران (آر اوز) کو طلب کرلیا ہے۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ق لیگ کی جانب سے پیش ہونے والے ڈاکٹر خالد رانجھا کی درخواست کو اس پارٹی کی جانب سے پیش کیے جانے والے سات گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد قبول کرلیا۔

ان تمام گواہوں نے مختلف حلقوں میں ق لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور انہوں نے کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں یہ الزام عائد کیا کہ متعلقہ آر اوز نے کسی نوٹس کے اجراءپر انہیں مطلع نہیں کیا تھا۔

ان کا دعویٰ تھا کہ انہیں اس وقت پولنگ اسٹیشنز میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جب آر اوز انتخابی نتائج کو مرتب کررہے تھے۔

ان گواہوں کا کہنا تھا کہ آر اوز نے کہا تھا کہ انہیں نتائج سے ان کے گھروں میں آگاہ کردیا جائے گا اور ان کے آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

کمیشن نے اپنے ریمارکس میں کہا " گواہوں کی جانب سے سامنے آنے والے ان الزامات پر متعلقہ آر اوز سے جرح کی ضرورت ہے"۔

کمیشن نے عدالتی افسران کو حکم جاری کیا کہ وہ بدھ کو امیدواروں کو جاری ہونے والے نوٹسز کے ریکارڈز کے ہمراہ پیش ہوں۔

کمیشن نے عدالتی عہدیداران کو ہدایت کی کہ وہ آر اوز کو لاہور ہائیکورٹ کے رجسٹرار کے ذریعے کمیشن کے حکم سے آگاہ کریں ۔

کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں میں محمد شاہ، سردار محمد یار ہراج، سردار طالب حسین نکئی، خالد پرویز کل، چوہدری شفاعت حسین اور ڈاکٹر عظیم الدین شامل تھے۔

بدھ کو کمیشن میں طلب کیے جانے والے عدالتی افسران میں حلقہ این اے 134 سے ایڈیشنل سیشن جج، قصور کے حلقہ این اے 140 سے سنیئر سول جج رفاقت علی کمبر، قصور کے حلقہ این اے 142 سے ایڈیشنل سیشن اعجاز حسین اعوان، پاکپتن کے حلقہ این اے 164 سے ایڈیشنل جج ارشد حسین، فیصل آباد سے حلقہ پی پی 61 سے ایڈیشنل سیشن جج امتیاز حسین، گجرات کے حلقہ پی پی 109 سے ایڈیشنل سیشن جج محمد قاسم خان اور خانیوال کے حلقہ پی پی 215 سے ایڈیشنل سیشن جج قمر اعجاز شامل ہیں۔

فارم 15 کی دستیابی : کمیشن کے سامنے منگل کو پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن، پی پی پی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے فارم 15 کی دستیابی کے حوالے سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام پولنگ اسٹیشنز کی نقول سے متعلق ضلعی ججز سے موصول ہونے والی رپورٹس جمع کرائی گئیں ۔

کمیشن کی جانب سے 27 مئی کو پی ٹی آئی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے سیل بند انتخابی بیگز سے فارم 15 کو نقول پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کمیشن کو 44 ہزار 339 پولنگ اسٹیشنز سے ایک لاکھ 40 ہزار فارم 15 میں سے 52 فیصد فارمز موصول ہوگئے ہیں، جبکہ جن پولنگ اسٹیشنز سے فارم موصول نہیں ہوئے ان کی تعداد 14 ہزار 641 ہے۔

ان پولنگ اسٹیشنز میں 3449 بیگز کی سیل ٹوٹی ہوئی تھی جبکہ 40 ہزار 630 بیگز کی سیلز ٹھیک طور سے لگی ہوئی تھیں جبکہ دو سو ساٹھ پولنگ اسٹیشنز پر انتخابی بیگز گمشدہ ہیں۔

مجموعی طور پر کمیشن کو قومی اسمبلی کے 272 حلقوں میں سے 169 حلقوں کی فارم 15 کی رپورٹس موصول ہوئی ہے، اسی طرح پنجاب اسمبلی کی 297 میں سے 211 حلقوں ، سندھ اسمبلی کی 131 میں سے 59 حلقوں، کے پی اسمبلی کے 99 میں سے 73 حلقوں اور بلوچستان اسمبلی کی 57 میں سے بیس نشستوں کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں۔

منگل کو پی ٹی آئی کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کمیشن کو آگاہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی سربراہ عمران خان پر جرح نہیں کریں گے جس کا عندیہ انہوں نے پہلے دیا تھا۔

آر اوز کے ساتھ کمیشن نے سابق چیف الیکشن کمشنر سندھ ایس ایم طارق قادری اور ایم کیو ایم حقیقی کے رہنماءآفتاب احمد کو اس پارٹی کے وکیل حشمت حبیب کی درخواست پر طلب کیا۔

کمیشن نے ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ آفاق احمد کو طلب کرنے کا بھی عندیہ دیا تاہم وکیل کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی وجوہات کی بناءپر ان کی نقل و حمل کافی محدود ہے اس لیے وہ بدھ کو نہیں آسکیں گے تاہم وہ اس سے اگلے روز کمیشن کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں۔

کمیشن نے جماعت اسلامی کی جانب سے پیش کیے جانے والے پانچ گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔