Dawn News Television

اپ ڈیٹ 28 جون 2015 08:41am

وی آئی پیز کی شاہانہ زندگی سیاسی معاملہ، عدالت

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، گورنر ہاؤسز، ان میں رہنے والے افراد کے اخراجات اور عوام کے پیسوں پر حکومتی اہلکاروں کی مراعات حکومتی پالیسی کا حصہ اور سیاسی معاملہ ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ عام طور پر اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتی۔

پاکستان لائرز فورم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ اس حوالے سے درخواست گزار کے دلائل چاہیں کتنے ہی وزن دار کیوں نہ ہوں، عدالت خود کو اس معاملے میں ملوث نہیں کرسکتی۔

خیال رہے کہ 27 نومبر 2002 کو بھی لاہور ہائی کورٹ نے اسی طرح کی ایک درخواست کو مسترد کیا تھا۔

31 مارچ 2015 کو پاس ہونے والے مختصر فیصلے میں تین رکنی بینچ جس میں جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس مشیر عالم بھی شامل تھے، نے میرٹ پر نہ ہونے کی بنیاد پر درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے اے کے ڈوگر نے موقف اختیار کیا کہ سرکاری اہلکاروں کو مہنگی گاڑیوں، بڑے بڑے گھر اور دیگر سہولیات کے ذریعے پرتعیش طرز زندگی فراہم کرنا نہ صرف غیر اسلامی اور غیر آئینی ہے بلکہ یہ پاکستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

ڈوگر صاحب نے کہا کہ پاکستان ریاست کے تمام اثاثے، فنڈز اور پراپرٹی پاکستان کی عوام کے مفاد کے لیے ہیں، سرکاری اہلکاروں کے لیے نہیں، انہیں یہ سب صرف اس لیے سپرد کیا گیا ہے کہ اس سے وہ عوام کو فائدہ پہنچائیں۔

سماعت کے دوران کونسل کا موقف تھا کہ سرکاری حکام پر خرچ ہونے والی رقم کو عوام کے مفاد میں استعمال کیا جانا چاہیے۔

ان کے مطابق سرکاری حکام اور پاکستان کے ایک عام آدمی کے لائف اسٹائل میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے جو کہ امتیازی سلوک کے مترادف ہے اور اس سے عام آدمی کی عزت نفس بھی متاثر ہوتی ہے۔

اب چھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں سپریم کورٹ نے اعتراف کیا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عوامی پراپرٹی پبلک ٹرسٹ ہے جو سرکاری حکام کے ہاتھ میں ہے۔

تاہم عدالت نے کہا کہ سرکاری حکام کو مراعات دینے کا معاملہ حکومتی پالیسی کا حصہ ہے اور عدالت عام طور پر اس میں مداخلت نہیں کرتی۔

Read Comments