Dawn News Television

اپ ڈیٹ 09 اگست 2015 01:34pm

‘بچوں سے زیادتی اور فلم بندی زمین کا تنازع'

قصور: پنجاب کے علاقے قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور اس دوران فلم بندی کے گذشتہ ماہ منظر عام پر آنے والے واقعے کے بعد انتظامیہ نے متاثرین کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دو گروپوں کے درمیان زمین کے تنازع کا معاملہ ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے میڈیا میں آنے والی متنازع رپورٹس ، جن میں کہا گیا ہے کہ متاثرہ بچوں کی تعداد 300 کے قریب ہے، کے جواب میں کہا ہے کہ صرف سات ’شکایات ان تک پہنچی ہیں۔‘

انھوں نے اسکینڈل کو دو گروپوں کے درمیان زمین کا تنازع قرار دیا ہے۔

ڈی پی او رائے بابر کا کہنا تھا کہ اسکینڈل کے حوالے سے ’بعض غلط فہمیاں‘ موجود ہیں۔

رائے بابر کا کہنا ہے کہ 6 ملزمان کا 14 روزہ ریمانڈ مکمل ہونے پر چالان پیش کردیا جائے گا جبکہ ایف آئی آر میں نامزد دیگر پانچ ملزمان ضمانت حاصل کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: قصور: 'بچوں سے ریپ کی رپورٹس بے بنیاد'

ڈی پی او نے کیس میں کسی بھی سیاسی دباؤ کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کی جانب سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اپنا کام ایک ہفتے میں مکمل کر لے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو ایسے ثبوت نہیں ملے ہیں کے متاثرین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔

رائے بابر کا کہنا تھا کہ ’مساجد سے اعلانات کروائے گئے تھے کہ متاثرین بغیر کسی خوف کے شکایت درج کروانے کے لیے پولیس اسٹیشن پہنچے‘۔

بعد ازاں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے اے ایف آئی آر میں نامزد دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ہے۔

انھوں نے یہ حکم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایڈیشنل آئی جی آپریشنز عارف نواز خان اور لاہور کمشنر عبداللہ خان سنبل کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے بعد دیا۔

یاد رہے کہ ملزمان اور ان کے خاندان گاؤں چھوڑ چکے ہیں جبکہ گذشتہ دنوں مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والے تصادم میں 15 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

ادھر پنجاب کابینہ میں شامل وزیررانا ثناء اللہ نے تمام معاملے کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں میڈیا میں آنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ قصور سے 5 کلو میٹر دور قائم حسین خان والا گاؤں کے 280 بچوں کو زیادیتی کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ اس دوران ویڈیو بھی بنائی گئی ہے اور ان بچوں کی عمریں 14 سال سے کم بتائی گئی ہے۔

رپورٹس کے مطابق ان بچوں کے خاندان کو بلیک میل بھی کیا جاتا رہا ہے۔

Read Comments