گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے اور جب کراچی میں گرمی پڑتی ہے تو یہاں کے شہری ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کلفٹن کا غلیظ ساحل ان کی شامت میں مزید اضافے کا ہی باعث بنتا ہے۔
ایک تو ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ 42 ڈگری سینٹی گریڈ میں لوگ اپنے گھروں سے نکل کر بیس سے پچیس کلو میٹر دور کلفٹن کے ساحل سی ویو پر جانے کا جوکھم اٹھاتے کیسے ہیں؟
پھر ساحل کی گندی اور کالی آئل میں ڈوبی ریت اور سر پر آگ برساتا سورج! اس سے تو بہتر ہے کہ آدمی ایک ٹب میں پاؤں ڈال کر بیٹھ جائے اور پنکھے کے آگے برف کی سل رکھ کر ملکہ کوہسار مری کی ٹھنڈی ہواؤں کا مزہ گھر بیٹھے لوٹے۔
آپ لوگ بھی کہیں گے کہ یہ آدمی 80 کی دھائی میں زندہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر میں آپ کو ائر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر گرمی سے بچنے کا مشورہ دوں تو زیادتی ہوگی۔ کیونکہ گرمیوں میں ایک تو لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اگر بجلی آ بھی رہی ہو تو وولٹیج اتنا ڈاؤن ہوتا ہے کہ AC کام نہیں کرتا۔
ہم آج تک یہ بھی جاننے سے قاصر رہے ہیں کہ کلفٹن اور ڈیفنس کا ساحل اتنا گندہ کیوں ہے؟ کیا یہ کلفٹن اور ڈیفنس میں رہنے والوں کے اعمال کی وجہ سے کالا ہو گیا ہے؟
یہ پڑھنے کے بعد وہاں کے رہنے والے شرفاء کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھر آئے گی کہ چھوٹا آدمی ہمیشہ چھوٹی بات کرے گا۔
کلفٹن کا ساحل کتنا ہی غلیظ کیوں نہ ہو وہاں کے رہنے والوں پر اس کا اثر نہیں پڑتا کیونکہ وہ سی ویو جانے کی بجائے شہر سے باہر سینڈز پٹ، ہاکس بے، سنہرا، اور فرینچ جیسے خوبصورت ساحلوں پر وقت گزارتے ہیں جہاں انہوں نے اپنی آسائش کے لئے خوبصورت ہٹس بھی بنا رکھے ہیں۔
لیکن برا ہو اس گرمی اور KESC والوں کا کہ کراچی کے بلبلاتے ہوئے عوام ان شرفاء کو وہاں بھی چین نہیں لینے دیتے اور بسوں اور سوزوکیوں میں بھر بھر کر ہاکس بے اور سینڈز پٹ پہنچ جاتے ہیں۔ اور ساتھ میں بریانی کی دیگ اور کولڈ ڈرنک کے کریٹس بھی لے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو ذرا احساس نہیں ہوتا کہ صاحب اور ان کی فیملی چھٹی والے دن تھوڑا ریلیکس کرنا چاہتے ہیں۔
ہماری حکومت ایسے جاہل اور گنوار لوگوں کو ان ساحلوں سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کرتی ہے اور عوام کی سہولت کے لئے رتی برابر زحمت نہیں اٹھاتی. نا آپ کو ساحل پر میٹھا پانی ملے گا نہ باتھ روم۔ نہ دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی شیلٹر۔
لیکن قربان جائیے ان ڈھیٹ عوام پر جو اتنی تعداد میں مرنے کے باوجود روزانہ ساحل پر میٹھے پانی سے بھرے ہوئے کولروں کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں۔ دھوپ زیادہ ہو یا پھر کپڑے بدلنے کی پرابلم تو جناب بس کس دن کام آئے گی۔ باقی رہا باتھ روم تو عوام اس طرح کی تمام حاجات سمندر میں اتر کر ہی فارغ ہو جاتے ہیں۔
کراچی والے بھی کراچی والے ہیں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کراچی میں پچاسی فیصد ائیرکنڈیشنرز کنڈوں پر چلتے ہیں گھر چاہے 80 گز کا ہو یا 120 گز کا، فلیٹ چاہے تین کمروں کا ہو یا پانچ کمروں کا، گھر میں ایک یا دو اسپلٹ ضرور ہوتے ہیں عموماً ایسے اسپلٹ گھر کے بالکل کونے اور آخری کمرے میں لگائے جاتے ہیں جہاں KESCوالوں کی پہنچ ناممکن ہوتی ہے۔
میرا ایک دوست 80 گز کے گھر میں رہتا ہے میں اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے جس کمرے میں بٹھایا وہاں تین پنکھے اور ایک AC لگا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا تمہارا بجلی کا بل کتنا آتا ہے کہنے لگا ایمان کی بات ہے آج تک ڈیڑھ ہزار سے اوپر کا بل میں نے ادا نہیں کیا ہے۔
میں نے کہا اور یہ AC؟
کہنے لگا کنڈے پر ہے
میں نے کہا KESC والے چیک نہیں کرتے؟
جواب میں فرمایا جب KESC والے آتے ہیں تو وہ کمرے کو لاک کر کے ان سے کہہ دیتا ہے کہ بھابھی کا کمرہ ہے جو بھائی سے ناراض ہو کر میکے گئی ہوئی ہیں۔
کراچی میں کتنی ہی بجلی چوری ہوتی ہو KESC والے وصولی سو فیصد کرتے ہیں مزے میں وہ لوگ رہتے ہیں جو بجلی چوری کرتے ہیں اور وہ شریف آدمی جو بجلی چوری نہیں کرتا اور اپنا بل بھی وقت پر ادا کرتا ہے چوری کی جانیوالی بجلی کا بوجھ بھی اسے اٹھانا پڑتا ہے۔ جبھی تو اپنے شریف بھائی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ بھائی میں صرف دو پنکھے اور دو انرجی سیور استعمال کرتا ہوں پھر بھی بل پانچ ہزار کا آتا ہے!