Dawn News Television

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2015 12:54pm

پاکستان کی یونیورسٹیوں پر جنات کا حملہ

گذشتہ ہفتے پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اسلام آباد کے ہیومینیٹیز ڈیپارٹمنٹ نے 'جنات اور کالے جادو' پر ایک ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ مدعو کیے گئے مقرر راجہ ضیاء الحق، جنہیں 'امراضِ قلب کے روحانی ماہر' کے طور پر متعارف کروایا گیا، جنات اور شیطانی طاقتوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ بہت مشہور ہیں: اخبارات میں شائع ہونے والی ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے مرکزی آڈیٹوریم میں کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی۔

جنات اور کالے جادو کی حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے دلچسپ منطق استعمال کی گئی۔ مقرر نے سب سے پہلے تمام غیر مرئی مخلوقات (جنہیں دیکھا نہیں جا سکتا) کو تین اقسام میں تقسیم کیا: وہ جو اڑ سکتے ہیں؛ وہ جو حالات کے مطابق شکل و صورت تبدیل کر سکتے ہیں؛ اور وہ جو گندگی اور اندھیری جگہوں میں ٹھکانہ بناتے ہیں۔ ان کا سوال تھا کہ اگر یہ چیزیں حقیقت میں موجود نہیں، تو پھر ہالی وڈ کروڑوں ڈالر خرچ کر کے ڈراؤنی فلمیں کیوں بناتا ہے؟

مگر کیا یہ دلیل آپ کو زبردستی یہ ماننے پر مجبور نہیں کرتی کہ ڈریکولا، ویمپائر اور چلنے والے مردے بھی حقیقت میں موجود ہوتے ہیں؟ سامعین میں سے صرف ایک باہمت آواز بھی اس بے تکے دعوے کو غلط ثابت کر سکتی تھی۔ مگر اس طرح کے تمام ایونٹس کی طرح اس ایونٹ میں بھی منتظمین نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ مبلغ کا تین گھنٹے طویل لیکچر بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے۔

اب آگے کیا ہوتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے۔ شاید کامسیٹس جنات پر مبنی ایک مواصلاتی نظام بنائے یا پھر ایک اور فائدہ مند چیز ریڈار کی نظروں میں نہ آنے والے اور جنات کی توانائی سے چلنے والے کروز میزائل ہو سکتے ہیں۔ جن کیمسٹری ایک اور شعبہ ہو سکتا ہے جسے ضیاء الحق دور میں شروع کیا گیا تھا۔ کامسیٹس کو 1970 کی دہائی کے اوائل میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سینیئر ڈائریکٹر کی پیٹرولیم اور ایٹمی ایندھن کو جنات کی توانائی سے بدلنے کی تجویز پر بھی غور کرنا چاہیے۔

ویسے دیکھا جائے تو گذشتہ ہفتے ہونے والا یہ پروگرام کوئی ایسا غیر متوقع بھی نہیں تھا۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے ہی مقررین کو مدعو کرنا، جو ماورائے عقل معلومات پر دسترس کا دعویٰ کرتے ہیں، کافی عام بات ہے۔ کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینیجمنٹ (آئی او بی ایم) نے کچھ عرصہ پہلے 'انسان کے آخری لمحات' کے عنوان سے ایک لیکچر کا اہتمام کیا تھا۔ طلباء سے آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ طلباء کو اگلی دنیا کی تصویری جھلکیاں بھی دکھائی گئی تھیں۔ لیکن کیا یہ معلومات اس مقرر کے پاس کسی مردے نے ایس ایم ایس کے ذریعے بھیجی تھیں، یہ انہوں نے نہیں بتایا۔

آپ سوچتے ہوں گے کہ پاکستان کی مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں کہانی شاید مختلف ہوگی۔ لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز)، جو پاکستان کی مہنگی ترین نجی یونیورسٹی ہے، میں امریکی ڈالروں سے تعمیر شدہ سائنس اور انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ ہے۔ لگتا تھا کہ اس کا ایک سنجیدہ مشن ہے مگر لمز کے کئی پروفیسر اب کھلم کھلا سائنسی دلائل کا مذاق اڑاتے ہیں۔

اتفاقیہ طور پر اس سال کے آغاز میں مجھے لمز کے ایک ہیومینیٹیز کے پروفیسر کا لیکچر اٹینڈ کرنے کا موقع ملا، جو سائنس کا مذاق اڑانے میں خوب شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات خود تسلیم کی کہ وہ فزکس نہیں جانتے، مگر پھر دعویٰ کیا کہ 1923 میں امریکی ماہرِ فزکس رابرٹ ملیکین کو ملنے والا فزکس کا نوبیل انعام ان کا حق نہیں تھا کیونکہ ان کی تحقیق میں استعمال ہونے والے اعداد و شمار منتخب کردہ تھے۔

ان کے دعووں میں غلطیاں نظر آ رہی تھیں مگر جب پروفیسر صاحب نے آئن اسٹائن کے مشہور فارمولے E=mc2 پر اعتراضات کی بارش کر دی تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اگر یہ فارمولہ غلط ہے تو ایٹم بم کس طرح پھٹتے ہیں اور ایٹمی پلانٹ بجلی کیسے پیدا کرتے ہیں؟ یقیناً جن ہی کرتے ہوں گے۔ مگر اس طرح کے دعوے کرنے والے وہ اکیلے شخص نہیں ہیں۔

مغربی سائنس چھوڑنے کے اپنے عزم کا ثبوت دیتے ہوئے گذشتہ ماہ لمز نے پاکستان سے سب سے باعزت ماہرِ میتھمیٹیکل فزکس کو ان کی نوکری سے فارغ کر دیا۔ یہ ان پروفیسر کے لیے نقصان دی نہیں ہے کیونکہ ہارورڈ، پرنسٹن، یا ایم آئی ٹی (جہاں سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی) انہیں گرمجوشی سے خوش آمدید کہیں گی۔

ماورائے عقل باتوں پر یقین رکھنا اور ہر چیز میں سازش کی بو سونگھنا ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اس لیے یہ بات حیرانگی کی نہیں کہ پاکستان کی سب سے بڑی سرکاری یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پنجاب کے موجودہ وائس چانسلر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ 11 ستمبر کے حملے امریکی سازش تھے۔ اس کے علاوہ ایک اخباری انٹرویو میں ان کا دعویٰ تھا کہ دنیا بھر کا اقتصادی نظام مونٹے کارلو شہر میں موجود یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔

سازشی کہانیوں کے دلدادہ لوگوں کے لیے خوش خبری یہ ہے کہ مشہورِ زمانہ زید حامد سعودی عرب میں 1000 کوڑوں کی سزا کو چکمہ دے کر واپس پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ یہ شعلہ بیان مقرر بہت جلد ہی پاکستان بھر کے یونیورسٹی کیمپسز میں اپنے دورے شروع کرے گا۔

ہماری یونیورسٹیوں میں موجود خلافِ دلیل خلافِ سائنس رویہ سمجھنے میں مشکل ہو سکتی ہے مگر یہ اتنا بھی مشکل نہیں۔ ایک منٹ کے لیے سوچیں۔ سائنس کے خلاف زہر اگلنا اور اس کی بنیاد کو ٹھکرانا ٹوٹی ہوئی کرسی سے گرنے سے بھی زیادہ آسان ہے۔ سائنس کو مسترد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ میتھمیٹکس اور فزکس جیسے مشکل مضامین سمجھنے کے لیے درکار کوشش اور محنت سے بچ سکتے ہیں۔ سائنس کو برا بھلا کہنا سائنس سمجھنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔

اس کے فوائد بھی بہت ہیں: مرگی جیسے ذہنی امراض کو نیوروسرجنز یا کلینکل سائیکولاجسٹس کی مدد کے بغیر ہی سمجھا اور ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سب کچھ جنات کی وجہ سے ہی تو ہے۔ ایک اچھا پیر یا جن نکالنے والا بابا کافی ہوگا۔ آپ کو موسمیات کی پیچیدہ سائنس سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہوائیں جنات چلاتے ہیں اور زلزلے تو ویسے بھی ہمارے گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں لہٰذا ان کا علم بھی ایک بیکار چیز ہے۔

جہاں تک کمپیوٹروں اور موبائل فونز جیسے کھلونوں کی بات ہے تو ہم ہمارے سعودی بھائیوں کی طرح ایپل اور نوکیا سے بہترین چیز خرید سکتے ہیں۔ پیسوں کی بھوکی کوئی زِنگ زینگ زنگ کمپنی پاکستان کے لیے موبائل فون نیٹ ورک شروع کر دے گی۔ ٹیکنالوجی اور نت نئی چیزیں ایجاد کرنے کا کام ہم چینیوں، امریکیوں اور یورپیوں پر چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ ان کے جن اپنا کام خوب جانتے ہیں۔

پاکستان کی یونیورسٹیوں کو علم و حکمت، روشن خیالی، تند و تیز سوالات اور بے خوف نئی سوچ کا مرکز ہونا چاہیے تھا۔ مگر اس کے بجائے یہ بھیڑوں کے باڑے کی طرح ہیں۔ عقلی طور پر سست اور جاہل پروفیسر طلباء کی ایسی نسل تیار کرنا چاہتے ہیں جو بس ہر چیز سوال اٹھائے بغیر اور نکتہ چینی کیے بغیر مان لے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہاتھ سے ایجاد کردہ کوئی ڈراؤنا کردار 5 سال کے بچوں کو اچھی طرح ڈرا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ انہی غیر انسانی مخلوقات اور موت کا خوف 20 سے 25 سال کے بچوں کے ذہنوں میں بٹھا کر انہیں خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیمپسوں میں جنات پر گفتگو کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ثقافتی اور عقلی پسماندگی کی رفتار بڑھے گی، کم نہیں ہوگی۔

لکھاری لاہور اور اسلام آباد میں فزکس پڑھاتے ہیں.

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا.

انگلش میں پڑھیں۔

Read Comments