Dawn News Television

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2015 04:41pm

نتائج سے پہلے کامیابی کا ڈھنڈورا

وزیراعظم نواز شریف کا حالیہ دورہ امریکا کتنا کامیاب رہا یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ دورہ اس لحاظ سے اہم ضرور تھا کہ اگلے سال وائٹ ہاوس میں نیا صدر چارج سنبھالے گا اور موجودہ صدر بارک اوباما وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل خطے میں امن کی کامیابی کا تاج اپنے سر پر سجا کر رخصت ہونا چاہتے ہیں، تاہم اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ دہشت گردی کی رٹ لگا کر پاکستان سے 'ڈو مور' کا مطالبہ کر سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کا دنیا سے 'ڈو مور' کہنے کا وقت ہے۔ اور یہ بات وزیراعظم کے وفد میں شامل سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے میڈیا بریفنگ کے دوران تو بتائی لیکن وزیراعظم یہ بات برملا امریکی حکام سے کہنے کی 'جسارت' نہ کر سکے۔ وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران صدر اوباما، نائب صدر جو بائیڈن، وزیر خارجہ جان کیری اور امریکی سینیٹ کے اراکین سمیت متعدد امریکی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور بقول وفاقی وزراء اور خود وزیراعظم کے یہ دورہ کامیاب رہا۔

مجھے نہیں معلوم کہ پاکستانی حکام کے بین الاقوامی دوروں کی کامیابی کا پیمانہ آخر ہے کیا؟ دوروں کو کامیاب قرار دینے کے لیے اس کے نتائج کا انتظار ضروری ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں اُدھر دورے ہوئے اور اِدھر اس کی کامیابی کے فتوے جاری ہوئے۔ اگر پاکستانی حکام کے تمام بین الاقوامی دوروں کو کامیاب کہا جائے تویقیناً یہ خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔

گذشتہ ماہ وزیراعظم کو اقوام متحدہ کے 70ویں اجلاس میں شرکت کے دوران وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے کی دعوت خود امریکی صدر نے دی تھی لیکن اس دورے میں چند دن کی تاخیر کی گئی۔ ایک وجہ تو ڈی جی آئی ایس آئی کے دورہ امریکا سے واپسی کا انتظار اور دوسری وجہ معاون خصوصی طارق فاطمی کی امریکا سے واپسی۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے امریکا سے واپسی پر وزیراعظم کو بریفنگ دینا تھی اور طارق فاطمی نے امریکا میں وزیراعظم کے دورے کے لیے ماحول کو سازگار بنانا اور امریکی حکام سے ملاقاتوں کی تفصیلات لے کر وزیرِ اعظم کو آگاہ کرنا تھا۔ اس دورے کے دوران اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون کی طرح امریکی وزیر خارجہ کو بھی پاکستان میں ہندوستانی مداخلت کے شواہد دیے گئے اور اب حکام امید لگا بیٹھے ہیں کہ ان شواہد کی بنیاد پر امریکا ہندوستانی حکام سے بات کرے گا اور یوں پاکستان میں ”را“ کی مداخلت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔

مسئلہ صرف پاکستان میں ہندوستان کی مبینہ مداخلت کا نہیں بلکہ ہندوستان افغانستان میں بھی پاکستان مخالف فضا کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، جو پاکستان کے لیے دردِ سر ہے۔ امریکی صدر نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے پاکستان کو کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے لیکن عین اسی وقت وزیراعظم نواز شریف کو بھی افغانستان میں ہندوستانی خفیہ ادارے کی سرگرمیوں سے متعلق بات کرنی چاہیے تھی۔

وزیراعظم کا یہ شکوہ درست ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے خلاف فوجی کارروائیاں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم کے اس مؤقف سے اتفاق کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ اگر وزیراعظم مذکورہ مطالبہ بھی کرتے تو شاید نتائج جلد سامنے آتے۔

آئندہ چند روز تک ہمارے میڈیا میں وزیراعظم کے دورے کی کامیابی پر بحث و مباحثے ہوں گے، لیکن اس کا شاید کوئی حاصل ہی نہ ہو۔ وزیرِ اعظم سمیت خارجہ امور سے منسلک تمام حکام کو چاہیے کہ اس دورے کے بعد بھی امریکی حکام سے رابطے جاری رکھیں اور اس اعلیٰ سطح کے دورے کے دوران ہونے والے تمام معاہدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے امریکی حکام پر زور ڈالیں کیونکہ اس وقت امریکی صدر بارک اوباما پاکستان کا مقدمہ سننے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کی ایک وجہ اوپر بتائی جا چکی ہے۔

بارک اوباما وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل خطے میں امن کے قیام کے لیے راستہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے ان کو جتنی ضرورت پاکستان کی ہے، کسی اور کی نہیں، اور یہ بات وہ خود بھی جانتے ہیں، تبھی تو وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ہمراہ جانے والوں کو امریکا میں توقع کے برخلاف زیادہ پروٹوکول دیا گیا اور بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس دورے کے دوران ہونے والی اہم ملاقاتوں کو زبردست کوریج دے کر اپنا حق ادا کیا۔

امریکا کو اگر خطے اور عالمی امن میں واقعی دلچسپی ہے تو معروضی حقائق کی روشنی میں ہندوستان پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ نہ صرف پاکستان میں مداخلت سے باز رہے، بلکہ افغانستان میں بھی اپنا خفیہ ایجنڈا چھوڑ کر وہاں سے بھی چلتا بنے۔ امریکا کو افغانستان میں طالبان کی شرکت کے ساتھ پائیدار حکومت کے قیام کے لیے بھی فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

اگر امریکا افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کو کامیاب بنانا چاہتا ہے تو اس اقدام کے لیے افغانستان میں ہندوستانی مداخلت کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ امریکی اور ہندوستانی حکومت پر بھی یہ واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن و استحکام کے لیے خطے سمیت عالمی سطح پر فعال کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان سے ہمیشہ 'ڈو مور' کا مطالبہ ہوتا رہا، صرف زبان سے پاکستان کی قربانیوں کو سراہا گیا لیکن پاکستان کو اس کا حقیقی کریڈٹ آج تک نہیں دیا گیا جو یقیناً پاکستان کا حق ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خطے سمیت عالمی سطح پر سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اور عالمی سطح پر امن کے قیام کے لیے کوششوں میں بھی سب سے بڑا کردار پاکستان کا ہے لیکن پھر بھی پاکستان پر آئے روز الزامات لگتے رہتے ہیں۔ ہندوستان خود کو دنیا کے سامنے ایک سیکولر ریاست کے طور متعارف کرواتا ہے لیکن وہاں ہندو انتہا پسندوں نے آج ملک بھر میں ادھم مچا رکھا ہے؛ ملک کے مسلمان شہری تو کیا ان سے اختلاف کرنے والے ہندوؤں کی بھی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔

ہندوستان کے اندر مذکورہ صورتحال کے باوجود وہ پاکستان میں نہ صرف جارحیت کا مرتکب ٹھہرا ہے بلکہ عالمی طاقتوں نے بھی کبھی ہندوستان کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے نوٹس نہیں لیا اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں یہ سب کچھ کرنے کے لیے ہندوستان سے باقاعدہ تعاون اور چشم پوشی جاری ہے۔

اب جبکہ پاکستان نے یہ معاملہ عالمی طاقتوں کے سامنے اٹھا دیا ہے تو اب پیچھے ہٹنے سے گریز کیا جائے اور اس ہاتھ دو اس ہاتھ لو کے مصداق امریکا سے تب تک ہر معاملے میں تعاون نہ کیا جائے جب تک وہ ہندوستانی جارحیت سے متعلق ہمارے کیس میں ہندوستان پر دباؤ نہیں ڈالتا۔

Read Comments