کھیل

نام نہاد سینئرز پر تکیہ، آخر کب تک؟

پاکستان کرکٹ بورڈ سبق سیکھتے ہوئے نام نہاد اسٹارز پر تکیہ کرنے کے بجائے اچھی کارکردگی کے حامل کھلاڑیوں کا انتخاب کرے۔

اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، چیمپیئنز ٹرافی میں ناکارہ کارتوسوں پر بھروسہ، غلط حکمت عملی، ناقص سلیکشن اور ٹیم میں گروپبنگ کا خمیازہ ہمیں بدترین شکست کی صورت میں بھگتنا پرا اور گرین شرٹس اپنے تینوں میچوں میں ناکامی سے دوچار ہوئے۔

اگر ابتدا سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ٹیم سلیکشن سے لے کر ہندوستان کے خلاف شکست تک تمام ہی معاملات کے غلط ہونے کے صاف اشارے ملے ہیں۔

سلیکشن پر نظر ڈالی جائے تو مجموعی طور پر ایک انتہائی غلط ٹیم کا انتخاب کیا گیا جہاں 15 رکنی ٹیم میں چار اوپنرز اور سات باؤلرز کو شامل کیا گیا اور اگر حفیظ کو ملایا جائے تو یہ تعداد آٹھ ہو جاتی ہے لیکن ٹیم میں مڈل آرڈر بلے بازوں کی تعداد محض تین تھی۔

انگلینڈ کی کنڈیشنز کو دیکھتے ہوئے ٹیم میں سات فاسٹ باؤلرز کی شمولیت حیران کن تھی جہاں ٹیم میں حیرت انگیز اضافہ شعیب ملک، عمران فرحت اور کامران اکمل کا تھا جو گزشتہ دورہ جنوبی افریقہ میں کوئی خاص کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے تھے تاہم اس کے باوجود سلیکٹرز ان پر مہربان نظر آئے۔

ٹیم سے شاہد آفریدی کو ڈراپ کرنا شاید ایک ٹھیک فیصلہ تھا لیکن اگر خراب کارکردگی کی بنیاد پر آفریدی کو ڈراپ کیا گیا تو ان کھلاڑیوں نے کس موقع پر میچ وننگ کارکردگی دکھائی تھی جس کی بنیاد پر وہ ٹیم میں شمولیت کے حقدار ٹھہرے؟

بہرحال آخری آٹھ ملکی ٹورنامنٹ کے آغاز کے ساتھ ہی ٹیم کی تیاریوں کی قلعی کھل گئی جہاں ویسٹ انڈیز کے خلاف پاکستان الیون صرف 169 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور کپتان مصباح الحق اور ناصر جمشید کے علاوہ بقیہ نو کھلاڑیوں نے دہرے ہندسے تک رسائی کی بھی زحمت گوارا نہ کی جس کے باعث ہم شاندار باؤلنگ کے باوجود میچ 2 وکٹ سے ہار گئے۔

اور پھر جنوبی افریقہ دوسرے میچ میں عجب نرالا انتخاب کرتے ہوئے اسد شفیق جیسے بلے باز کو باہر بٹھا دیا گیا حالانکہ ٹیم مینجمنٹ اس بات سے واقف تھی کہ اس میچ میں شکست کی صورت میں ہم ٹورنامنٹ سے باہر ہو جائیں گے۔

اس میچ میں بھی وہی ہوا جو گزشتہ کچھ میچوں سے ہوتا چلا آ رہا تھا اور مصباح 'ون مین آرمی' کی طرح ٹیم کی بقا کی جنگ لڑتے دکھائی دیے۔

 ایک بار پھر سات بلے باز ڈبل فیگر میں داخل نہ ہو سکے اور ٹیم ڈیل اسٹین اور مورنے مورکل سے محروم اوسط پروٹیز باؤلنگ اٹیک کے خلاف 234 رنز کا ہدف بھی عبور نہ کر سکی اور ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔

آخری میچ میں ہمارا مقابلہ روایتی حریف ہندوستان سے تھا لیکن مصباح الیون کے ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے باعث اس میچ کی اہمیت پاک و ہند میچوں جیسی نہ رہی لیکن اس بار بھی کرکٹ کے دیوانے شائقین قومی ٹیم سے امید لگا بیٹھے۔

اس میچ میں گرین شرٹس کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بارش سے متاثرہ میچ میں شکست کی مکمل ذمہ داری قومی کھلاڑیوں پر ڈالنا یقیناً زیادتی ہو گی، بالاخر موسم، ناقص بیٹنگ، خراب حکمت عملی اور دباؤ کے باعث ہم ایک اور ہار سے دوچار ہو کر بدترین ناکامی کا تمغہ سجانے میں کامیاب ہوئے۔

اگر اس پورے ایونٹ میں ٹیم کی بیٹنگ کا جائزہ لیا جائے تو سوائے مصباح کے کوئی اور بلے باز سو سے زائد رنز بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے جنہوں نے 173 رنز بنائے جبکہ دیگر کھلاڑیوں میں ناصر جمشید 94، اسد شفیق 41، محمد حفیظ 38، شعیب ملک 25، کامران اکمل 23 جبکہ عمران فرحت نے دو میچوں میں چار رنز بنائے۔

اس پورے ٹورنامنٹ اور ماضی قریب میں قومی ٹیم کی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے ہیڈ کوچ ڈیو واٹمور کے کردار پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے جن کی کوچنگ میں قومی ٹیم ایشیا کپ کے علاوہ کوئی بھی ٹورنامنٹ یا ٹیسٹ اور ون ڈے میچوں کی سیریز جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی جبکہ چیمپیئنز ٹرافی کے تینوں میچوں میں شاہین 200 رنز کا ہندسہ بھی عبور نہ کر سکے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قومی ٹیم گزشتہ 13 میں سے آٹھ میچز میں مقررہ اوورز کھیلنے سے پہلے ہی پویلین لوٹ گئی۔

مجموعی طور پر اس ایونٹ میں ناکامی کی زیادہ تر ذمہ داری خراب بیٹنگ پر عائد ہوتی ہے حالانکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے دورے کے دوران بیٹنگ میں بہتری کے لیے ٹرینٹ وڈہل کو بیٹنگ کوچ کے عہدے پر تعینات کیا تھا لیکن وہ بھی ٹیم کی قسمت نہ بدل سکے۔

بیٹنگ لائن کی ناکامی کی تقریباً تمام تر ذمہ داری عمران فرحت، شعیب ملک اور کامران اکمل پر عائد ہوتی ہے جنہیں کارکردگی سے زیادہ محض سینئر ہونے کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کیا گیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے جبکہ محمد حفیظ کی پرفارمنس نے بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔

اگر ان چاروں کھلاڑیوں کی گزشتہ دس میچوں میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو حفیظ  نے 273، ملک 174، فرحت 282 اور کامران اکمل نے 236 رنز بنائے جس میں آئرلینڈ اور ہالینڈ جیسی ٹیموں کے خلاف اننگز بھی شامل ہیں۔

محمد حفیظ کے بارے میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ باؤلنگ کی اضافی صلاحیتوں کے حامل ہیں جو ہر میچ میں کوٹے کے دس اوورز پورے کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سے دو وکٹیں بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن دراصل ان کو ٹیم میں بحیثیت بلے باز شامل کیا گیا ہے جس کا اصل کام ٹیم کو مظبوط بنیاد فراہم کرنا ہے اور اگر وہ ٹیم میں اپنے اصل کردار سے انصاف نہیں کر سکتے تو یقیناً پی سی بی کو کسی دوسرے آپشن پر غور کرنا چاہیے۔

اسی طرح کامران اکمل کی شمولیت کے لیے اس بات کو جواز بنایا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس ان سے بہتر وکٹ کیپر بیٹسمین موجود نہیں۔

یہ دلیل بھی کمزور دکھائی دیتی کیونکہ اول تو کامران نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران اپنی بلے بازی سے ٹیم کو خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا اور ان کی وکٹ کیپنگ بھی کسی طور اعلیٰ معیار کی نہیں کہی جا سکتی۔

دوسری بات یہ کہ بہت کم لوگ واقف ہیں کہ اسد شفیق بیٹنگ کرنے کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپنگ کی صلاحیتوں کے بھی حامل ہیں جو ڈومیسٹک کرکٹ میں متعدد بار یہ ذمہ داری نبھا چکے ہیں لہٰذا موجودہ صورتحال میں اسد وکٹ کیپر کے طور پر بھی ایک اچھا انتخاب ثابت ہو سکتے ہیں اور اس صورت میں ہم اپنی فائنل الیون میں ایک اضافی بلے باز یا آل راؤنڈر بھی شامل کر سکتے ہیں۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کرکٹ بورڈ اور سلیکشن کمیٹی ماضی کی کارکردگی خصوصاً چیمپیئنز ٹرافی سے سبق سیکھتے ہوئے نام نہاد سینئرز اور اسٹارز پر تکیہ کرنے کے بجائے ہندوستان کی طرح نوجوان اور اچھی کارکردگی کے حامل کھلاڑیوں کا انتخاب کرے اور 15 سے 20 کھلاڑیوں کا پول ترتیب دے کر ورلڈ کپ کے لیے تیاریوں کا آغاز کرے۔

اگر ایسا نہ کیا گیا تو یقیناً آئندہ ٹورنامنٹ اور سیریز میں بھی ہماری کارکردگی مختلف نہ ہو گی اور شائقین کرکٹ کا ہاکی کی طرح کرکٹ سے بھی اعتبار آٹھ جائے گا۔