Dawn News Television

شائع 10 دسمبر 2015 05:29pm

ایک بار پھر متحدہ، مگر کیسے؟

یہ جیت ہی نہیں، بلکہ بڑے پیمانے پر جیت ہے جس نے خود جماعت کے حامیوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ کی شاندار کامیابی نے ایک بار پھر ان تمام لوگوں کو غلط ثابت کر دیا ہے جو جماعت کی سیاسی موت کی پیشگوئیاں کر رہے تھے۔ یونین کونسلوں میں واضح اکثریت حاصل کرنے سے وہ جماعت جو اس شہر کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار پاتی تھی، ایک بار پھر اس کے معاملات سنبھالنے کا مینڈیٹ حاصل کر چکی ہے۔

یہ بات حیران کن محسوس ہو سکتی ہے کہ آخر کیوں یہ جماعت اپنی 'ناگوار' شہرت کے باوجود لوگوں کے دلوں میں دھڑکتی ہے۔ اس کا جواب ان لوگوں کے لیے چنداں مشکل نہیں جو اس شہر کے سیاسی اور سماجی حقائق سے آگہی رکھتے ہیں۔

یہ پہلی بار نہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ نے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں کوئی ٹارگیٹڈ آپریشن جھیلا ہو، اور پہلے سے زیادہ مضبوط عوامی مینڈیٹ کے ساتھ واپس آئی ہو۔ لیکن حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس کی کامیابی اس کی ماضی کی انتخابی کامیابیوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

اس دفعہ حالات کافی مختلف تھے۔ حزبِ مخالف کو ایم کیو ایم کے گڑھ میں انتخابی مہم چلانے میں کسی خوف کا سامنا نہیں تھا۔ درحقیقت حالات ایم کیو ایم کے مخالف نظر آ رہے تھے کیونکہ کئی جگہ اس کے دفاتر پر رینجرز کے چھاپوں اور اس کے مبینہ دہشتگردوں کی گرفتاریوں کی خبریں سامنے آ رہی تھیں۔

اطلاعات ہیں کہ ان میں سے کچھ دورانِ حراست مارے بھی گئے۔ الطاف حسین کے ٹیلیفونک خطابات اور ان کے بیانات کی اشاعت پر پابندی عائد ہے۔ انتخابات کے دن وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی نے متحدہ کے قائد کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے ان پر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا الزام لگایا۔ ان کے اور دیگر سینیئر رہنماؤں کے خلاف قتل اور منی لانڈرنگ کے کیسز میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کی تحقیقات بھی اطلاعات کے مطابق حتمی مراحل میں ہیں۔

یہاں تک کہ شہر کی آبادی میں بے پناہ تبدیلی، اور لسانی توازن کے اردو بولنے والی آبادی کے حق میں نہ ہونے کے باوجود یوں گمان ہوتا ہے کہ جماعت کی شہرت اور مقبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ ووٹروں کی جماعت سے وفاداری ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے حدود سے تجاوز کرنے اور مبینہ طور پر جرائم میں ملوث ہونے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت عوام کی جڑوں تک اتنی رسائی حاصل نہیں کر سکی ہے کہ متحدہ کی سیاسی برتری کے لیے واضح خطرہ ثابت ہو سکے۔

اس کی وجہ سندھ حکومت کی جانب سے کراچی کے انتظام و انصرام پر بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی ہے، جس کی وجہ سے دو کروڑ آبادی والا یہ شہر منتخب بلدیاتی حکومت کے لیے بے تاب ہے۔ شہر کو ایک صوبائی وزیر اور چند ایسے افسران چلاتے ہیں جن کا اس شہر میں کم ہی حصہ ہے۔ مقامی آبادی کو سرکاری نوکریوں میں نظر انداز کیا جانا اور بنیادی شہری سہولیات کی عدم دستیابی نے عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہی کیا ہے۔

گذشتہ حکومت میں اتحادی کی حیثیت سے متحدہ کو بھی ان میں سے کئی مسائل کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے، مگر اس کے باوجود اس کے ووٹروں کے نزدیک یہی وہ سیاسی جماعت ہے جو ان مسائل پر اپنی آواز بلند کرتی ہے، جبکہ دوسری تمام جماعتیں متحدہ کا متبادل پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

متحدہ کی حالیہ کامیابی کے پیچھے کارفرما عوامل میں سے اس آپریشن کے خلاف ردِ عمل بھی ہے جسے جماعت کے خلاف آپریشن سمجھا جاتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ شہر میں جاری آپریشن کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے، اور اس نے شہر میں تشدد کی شرح کو نیچے لانے میں کامیابی حاصل کی ہے، مگر اس کے باوجود رینجرز کی جانب سے حدود سے تجاوز کرنے کے بارے میں بھی اطلاعات موجود ہیں، جو متحدہ کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتے ہیں۔

کچھ ہفتے قبل اپنے دورہء کراچی کے دوران میں نے رینجرز کی جانب سے کئی علاقوں میں تجاوزات کی کہانیاں سنی ہیں۔ اس طرح کے واقعات نے متحدہ کو ہمدردی کے ووٹ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے اتحاد نے صرف 20 کے قریب نشستیں حاصل کیں، جبکہ توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ یہ اتحاد متحدہ کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے، مگر کوئی مقابلہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ یہاں تک کہ ان دونوں سیاسی جماعتوں کے سینیئر رہنما بھی جس پیمانے سے ہارے ہیں، اس سے یکطرفہ مقابلے کا ہی اشارہ ملتا ہے۔

یوں تو جماعتِ اسلامی کبھی کراچی میں انتہائی مضبوط سیاسی طاقت تھی مگر اس نے رفتہ رفتہ اپنی حمایت کھو دی ہے۔ مگر سب سے افسوسناک صورتحال تو پی ٹی آئی کے ساتھ پیش آئی جس نے متحدہ کے قلعے میں دراڑ ڈال دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی وہ سیاسی کامیابیاں بھی کھو چکی ہے جو اس نے 2013 کے عام انتخابات میں حاصل کی تھیں، جب پہلی دفعہ انتخابات لڑنے والے نامعلوم پارٹی امیدواروں نے ایم کیو ایم کے محفوظ حلقوں میں بھی بے انتہا ووٹ حاصل کیے تھے۔

2013 میں اٹھنے والی پی ٹی آئی کی لہر اس سونامی میں تبدیل ہونے میں ناکام ہوگئی ہے جس نے متحدہ کا صفایا کر دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ درحقیقت کراچی میں پی ٹی آئی ڈیفنس اور کلفٹن سے باہر نکلنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے اپنی تمام تر توجہ شہر کے مسائل کے بارے میں کوئی واضح منصوبہ پیش کرنے کے بجائے مخالفین کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے پر مرکوز کیے رکھی۔ اس کے علاوہ جماعتِ اسلامی کے ساتھ اس کا اتحاد بھی اس کی اس حمایت میں کمی کا سبب بنا جو زیادہ تر بالائی متوسط طبقے کے سماجی طور پر لبرل خیالات کے حامل لوگوں سے آتی ہے۔

اب جبکہ متحدہ نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، سندھ حکومت کے ساتھ اختیارات پر اس کا اختلاف ضرور ہوگا۔ یہ بھی واضح ہے کہ صوبائی حکومت کے ایم سی کے انتظامی اور مالی معاملات پر اپنا کنٹرول کھونا نہیں چاہتی۔ اس سے شہر میں طاقت کے لیے ایک تازہ اور زیادہ شدید رسہ کشی شروع ہوگی جس سے شہر میں سیاسی بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ مگر کچھ بھی ہو، حتمی بات یہ ہے کہ ووٹروں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور اس کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 9 دسمبر 2015 کو شائع ہوا.

Read Comments