لائف اسٹائل

2015 میں پاکستان کی 10 بہترین فلمیں

2015 میں نئے مگر باصلاحیت اداکاروں اور ڈائریکٹرز کی فلمیں شائقین کے سامنے آئیں جنھیں بہت زیادہ پسند بھی کیا گیا۔
|

2015 میں پاکستان کی 10 بہترین فلمیں

فیصل ظفر اور میمونہ رضا نقوی

پاکستان کی فلمی صنعت آزادی کے بعد جس تیزی سے عروج پر گئی اور بولی وڈ کا بھرپور مقابلہ کیا اسی قدر رفتار سے وہ زوال کا بھی شکار ہوئی خاص طور پر گزشتہ دو، تین دہائیوں کے دوران لولی وڈ لگ بھگ ختم ہو کر ہی رہ گیا اس دوران کچھ اچھی فلمیں تو آئیں مگر گنڈاسہ فلموں کے کلچر کے سامنے کچھ نہ کرسکیں۔

تاہم 'خدا کے لیے' اور 'بول' جیسی فلموں کے بعد پاکستانی سینما میں تبدیلی کی ایک امید پیدا ہوئی جسے ٹی وی چینلز سے بڑی اسکرین میں نام بنانے کے خواہشمند فنکاروں نے آگے بڑھایا اور 'میں ہوں شاہد آفریدی، وار' اور نامعلوم افراد سمیت دیگر کی کامیابی سے فلمی صنعت بظاہر بحالی نو کے قریب پہنچ چکی ہے۔

2015 میں نئے مگر باصلاحیت اداکاروں اور ڈائریکٹرز کی فلمیں تیار ہوکر شائقین کے سامنے آئیں جنھیں بہت زیادہ پسند بھی کیا گیا۔

ہم نے رواں سال کی چند مقبول فلموں کی فہرست مرتب کی ہے تاہم کسی کو درجہ بندی نہیں کی کیونکہ سب کے موضوعات اتنے مختلف تھے کہ انہیں نمبرون یا ٹو قرار دینا غط ہوتا، اس فہرست کو دیکھیں اور اندازہ لگائیں کہ پاکستانی سینما کس حد تک آگے بڑھ چکا ہے۔

جوانی پھر نہیں آنی

پبلسٹی فوٹو

ڈائریکٹر ندیم بیگ کی اسٹار کاسٹ، غیر ملکی لوکیشنز اور بھرپور مزاح کے ساتھ جوانی پھر نہیں آنی بزنس کے لحاظ سے سال کی سب سے بڑی ریلیز ثابت ہوئی۔ یہ فلم کئی شعبوں میں متاثر کن ثابت ہوئی، جیسے کہانی ،کچھ اداکاروں کی بہترین اداکاری، اسٹائلنگ اور بہت زیادہ مزاح، مگر اس کا معیار کچھ بیکار گانوں، مصنوعات کی تشہیر کے ناگوار انداز، اور بولی وڈ سے بہت زیادہ متاثر ہونے نے گرایا بھی تاہم پھر بھی ہنسنے پر مجبور کردینے والی ایسی تفریحی فلم تھی جو دیکھنے والوں کے دلوں کو خوب بھائی۔

مور

پبلسٹی فوٹو

مجموعی طور پر مور ایک ایسی فلم ہے جس میں متوازی سینما پاکستان کے کمرشل سینما سے ملتا ہے، اسے پاکستان کی جانب سے آسکر ایوارڈز کی غیر ملکی فلموں کی فہرست کے لیے نامزد بھی کیا گیا تاہم بدقسمتی سے منتخب نہیں ہوسکی۔ ڈائریکٹر جامی کی اس فلم مور نے ہوسکتا ہے کہ بڑی اسکرین تک پہنچنے پر کافی وقت لیا ہو مگر اس نے ایک طاقتور پیغام لوگوں تک پہنچایا اور یہی وجہ ہے کہ اسے خوب پسند بھی کیا گیا۔

شاہ

پبلسٹی فوٹو

ڈائریکٹر اور مرکزی کردار ادا کرنے والے عدنان سرور کی یہ فلم یہ کوئی پریوں کی کہانی نہیں اور نہ ہی غربت سے امارت تک پہنچنے کی داستان، کم از کم اس کا مرکزی نکتہ تو یہ نہیں، بلکہ ایک ایسی کہانی ہے جو بتاتی ہے کہ کس طرح نظام آپ کو ناکام بناتا ہے۔ یہ وہی کہانی ہے جو متعدد پاکستانیوں کی ہے خاص طور پر ایسے ایتھلیٹس کی جو ملک کے زیادہ 'گلیمرس' کھیل جیسے کرکٹ کا حصہ نہیں۔ شاہ کا سب سے بہترین حصہ کیا تھا ؟ یہ شکر چڑھی گولی نہیں، یہاں تک کہ 'حب الوطنی' کے نام پر بھی نہیں۔ نظام کرپٹ ہے اور واحد شخص جو اس سے بچ سکتا ہے وہ آپ خود ہیں۔ یہ پیغام بالکل واضح ہے۔

منٹو

پبلسٹی فوٹو

فلم منٹو میں سب سے مضبوط پہلو فلم کی ہدایت کاری تھا، جس کے سو فیصد مستحق بھی سرمد کھوسٹ ہی ہیں۔ فلم کے مناظر کی عکس بندی، کرداروں کی بناوٹ، ان کا تسلسل، رنگوں کا استعمال، تدوین، برقی اور صوتی تاثرات نے فلم کی کہانی کو متاثر کن بنا دیا، جس کی آڑ میں بہت کچھ چھپ گیا۔

بن روئے

پبلسٹی فوٹو

مومنہ دورید کی بن روئے اپنے ڈرامے کی بناءپر خواتین کی فلم بن سکتی تھی مگر یہ اتنی دلچسپ ضرور ثابت ہوئی کہ مرد بھی اسے بیٹھ کر دیکھ سکیں۔ بن روئے کرن جوہر کی فلموں کی طرح تھی یعنی شفیق دادی، خوش باش والدین، مضبوط خاندانی اقدار، امریکا کے دوروں کے دلچسپی بڑھانے والے مناظر اور سر تا پا ڈیزائنر ملبوسات، مگر اپنی خامیوں کے باوجود ہم ٹی وی کی پروڈکشن اس فلم نے ناظرین کے جیت جیتے اور سال کی کامیاب ترین فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی۔

تین بہادر

پبلسٹی فوٹو

پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ فلم دیکھنے کے قابل تھی جس کے ذریعے شرمین عبید چنائے نے مقامی سینما میں اینیمیشن کا آغاز کیا۔ تین بہادر کا بنیادی خیال تو وہی اچھے اور برے کے درمیان جنگ تھا مگر اس کا پلاٹ بذات خود کافی گھما پھرا کر مزاح، گانوں اور ایکشن کے تڑکے کے ساتھ پیش کیا گیا اور اسی لیے یہ بوسیدہ یا دقیانوسی نظر نہیں آیا۔ بہترین سانچے، محتاط تعمیر اور اردو کے اچھے ڈائیلاگز سے سجی یہ فلم صرف بچوں کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ بلکہ بالغ افراد بھی اس سے خوب لطف اندوز ہوئے۔

جلیبی

پبلسٹی فوٹو

ڈائریکٹر یاسر جسوال جلیبی بنیادی طور پر فہد مصطفیٰ کی نامعلوم افراد سے متاثر نظر آتی تھی۔ چونکہ فلم کا نام جلیبی ہے تو اسی لیے اس ایکشن تھرلر فلم میں کافی پیچ و خم نظر آئے تاہم جبکہ اس کا اختتام کافی طویل تھا اور اس میں کانٹ چھانٹ کی ضرورت تھی تاکہ فلم کو زیادہ مصالحے دار بنایا جاسکتا، مگر پھر بھی مناسب اسٹوری اور کیمرے کے ہائی کوالٹی ویژولز نے جلیبی کی چاشنی بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور کافی پسند بھی کی گئی۔

رونگ نمبر

پبلسٹی فوٹو

بطور فلم ڈائریکٹر یاسر نواز کی اولین فلم کچھ غیرمعیاری لطیفوں اور بونگے مزاح کے علاوہ کئی شعبوں میں اچھی فلم ثابت ہوئی بلکہ بزنس کے لحاظ سے تو یہ اولین دو یا تین فلموں میں سے ایک ہے۔ کہانی کی روانی کہیں بھی اچانک سست نہیں ہوتی اور یہ چیز اس فلم کو قابل قبول بناتی ہے۔ جاوید شیخ قصائی کے روپ میں ہر منظر میں زبردست اور چھائے نظر آئے۔ دانش تیمور ڈبل رول میں اچھے رہے اور وہ دو ہیروئینوں سے رومان لڑانے سمیت متعدد ولنوں کو باآسانی دھوکا دینے میں بھی کامیاب رہے۔جو چیز رونگ نمبر کو نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا آغاز اور اختتام ایک فلم کی طرح ہوا ہے، کسی ٹیلی فلم کی طرح نہیں۔ اہم کرداروں کو اسکرین پر اپنی موجودگی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا گیا ہے، گانوں کو مناسب مواقعوں میں شامل کیا گیا اور لڑائی کے مناظر بھی درست وقت پیش کیے گئے جو فلم کے پلاٹ کو بہتر بناتے ہیں۔

کراچی سے لاہور

پبلسٹی فوٹو

پسند کریں یا ناپسند مگر وجاہت رﺅف کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم کراچی سے لاہور دیکھ کر آپ خود کو ایک بار پھر جوان محسوس کریں گے۔ چہروں پر مسکراہٹ دوڑا دینے والے جملوں، پسند آجانے والے کردار جو گھر جیسے ہی محسوس اور رقص کرنے کے لیے اچھے گانے، مجموعی طور پر سڑک کے سفر پر بننے والی فلم تفریح سے بھرپور ہے۔ اس میں جاوید شیخ اور رشید ناز کے علاوہ بڑے نام شامل نہیں تھے مگر نوجوانوں نے اپنی اداکاری سے خود کو منوایا۔

دیکھ مگر پیار سے

پبلسٹی فوٹو

دیکھ مگر پیار کو چمکدار، قوس و قزح کے رنگوں سے ڈھانپنے کی کوشش کی گئی جو باکس آفس کا معرکہ سر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ فلم کی شوٹنگ پر محنت اور بہترین ویژولز کو اس کی کہانی نے دھندلا دیا جو بے ربط انداز میں یہاں سے وہاں چلتی رہی۔ اس برے تاثر کو ناقص اداکاری اور اسپانسرز کی مصنوعات کو پیش کرنے کے لیے متعدد مناظر نے مزید بڑھا دیا تاہم پھر بھی بحالی نو کے عمل سے گزرتے پاکستانی سینما کے لیے ایسے تجربات ہی آگے بڑھنے کا راستہ کھول سکتے ہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔