پاکستان

راہداری منصوبہ: سول ملٹری مشاورتی فورم کی تجویز

پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کسی بھی تنازع کے بغیر عمل درآمد کروانے کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی کی تجویز زیرِغور ہے۔

اسلام آباد: پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پی ای سی) پر کسی بھی قسم کے تنازع کے بغیر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سول اور ملڑی قیادت پر مشتمل ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنانے کی تجویز زیرِغور ہے۔

مذکورہ پیش رفت سے جڑے ذرائع نے ڈان کو بتایا ہے کہ ایسے فورم کے قیام کا مقصد راہداری منصوبے پر فوری عمل درآمد کے دوران سول اور ملٹری قیادت کی مشترکہ ذمہ داری بتانا ہے، اس منصوبے کو ملک کے لیے 'گیم چینجر' قرار دیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ دسمبر 2014 میں دہشت گردوں کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے آغاز کے اعلان کے بعد اس سے حاصل ہونے والے اہداف پر بات چیت کے لیے ایپکس کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اس تجویز کا اصل مقصد تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک ایسا فورم تشکیل دینا ہے جو اپنی رائے سے وفاق کو آگاہ کرتا رہے، اس میں صوبائی حکومتیں اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ شامل ہے۔

سرکاری عہدیداران کا کہنا ہے کہ 'بحث ابھی ابتدائی مراحل میں ہے'۔

سینیئر سیکیورٹی حکام کے مطابق ملک میں ہر کوئی سی پی ای سی پر مؤثر عمل درآمد چاہتا ہے کیونکہ یہ ملک کی قومی سلامتی اور اقتصادیات کو مضبوط کرے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'اس تجویز کا مقصد سب کو اعتماد لینا ہے تاکہ راہداری منصوبے کے فوائد میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو اور وہ نچلی سطح تک منتقل ہوسکیں'۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کی نظر میں سی پی ای سی پر مؤثر انداز میں کام جاری ہے اور اس قسم کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 'صاف لفظوں میں کہا جائے تو میں اس قسم کی کسی بھی تجویز سے آگاہ نہیں ہوں۔ دوسری بات یہ کہ فوج پہلے سے ہی اس منصوبے میں شامل ہے کیونکہ وہ اس راہداری کی سیکیورٹی کی ذمہ دار ہے'۔

انھوں نے مزید کہا کہ ' پلاننگ کمیشن کے تحت، ہم صوبائی حکومت کی جانب سے حقیقت پسندانہ بنیادوں پر آنے والی بہترین تجاویز کو وصول کررہے ہیں'۔

تاہم ایک سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فوج راہداری منصوبے میں سیکیورٹی کی ذمہ دار ہے جس کے لیے فوج میں ایک مکمل ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا مستقل اس حوالے سے مشغول رہنا ہی منصوبے پر کامیابی سے عمل درآمد کو یقینی بنائے گا۔

ایک سرکاری عہدیدار کے مطابق گذشتہ سال دسمبر میں صدر ممنون حسین کے دورہ چین کے موقع پر چینی حکام نے ان سے سیکیورٹی خدشات کا اظہار کیا تھا اور جنوری میں اسلام آباد میں موجود چینی سفارت خانے نے سیاست دانوں میں موجود کشیدگی پر ایک بیان جاری کیا تھا۔

سی پی ای سی پر عمل درآمد سے جڑے مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے چین کے خدشات کے حوالے سے مزید بتایا کہ راہداری منصوبے کے لیے کی جانے والی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا بیشتر حصہ توانائی کے شبعے کے لیے مختص ہے جس کی وجہ سے سرمایہ کار ہر قسم کی یقین دہانی چاہتے ہیں، جس میں سیکیورٹی اور سیاسی استحکام دونوں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل ماضی میں کئی بار سیاسی جماعتیں ایسے معاملات میں دخل دیتی رہی ہیں جس میں براہ راست فوج شامل تھی جبکہ آرمی چیف متعدد مقامات پر راہداری منصوبے کی ملک کے لیے اہمیت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔ 'تو ایسے مشکل منصوبے کے لیے سب کو کیوں اعتماد میں نہ لیا جائے'۔

یاد رہے کہ دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے کے بعد دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے فوج اور سول قیادت نے مشترکہ طور پر نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر عمل درآمد کروانے کا فیصلہ کیا تھا جس میں فوج، صوبائی حکومتیں اور وفاق کے نمائندے شامل ہیں۔

سرکاری عہدیدار نے مزید بتایا کہ مشاورت کا ایک ایسا ہی فورم سی پی ای سی کے لیے بھی ہونا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ غلط نہیں کہ سب کو اعتماد میں لیا جائے۔'

یہ خبر 10 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔