Dawn News Television

اپ ڈیٹ 19 فروری 2016 12:44pm

کسی کے جانے سے کچھ نہیں ہوتا

برصغیر پاک و ہند کی کلاسیکی موسیقی میں استاد بڑے غلام علی خان کی حیثیت ایک مضبوط ستون کی رہی۔ ان کا شمار مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ان گائیکوں میں ہوتا تھا، جن کی وجہ سے ان کا خاندان پٹیالہ قصور پہچانا جاتا ہے۔

ان کی گائیکی کے سامنے بڑے بڑے گویے پانی بھرتے تھے۔ شخصیت بارعب، آواز پاٹ دار، موسیقی کے اسرار و رموز سے کامل واقفیت اور سُر شناسی کے جوہر نے انہیں کلاسیکی موسیقی میں ایک طلسماتی مقام عطا کر دیا تھا، مگر وقت کا ستم دیکھیں، جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی تو استاد بڑے غلام علی خان کے ساتھ وہ ادب و آداب نہیں برتے گئے جس کے وہ حق دار تھے اور عادی بھی، تو انہوں نے پاکستان سے ہندوستان جانے کا فیصلہ کیا اور چلے بھی گئے۔

کلاسیکی موسیقی کے اتنے بڑے استاد کی ہجرت موسیقی کے منظرنامے پر یقیناً ایک بڑا واقعہ تھا۔ پاکستان میں شائقین موسیقیِ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اب پاکستان کے ہاتھ موسیقی کے شعبے میں خالی رہ جائیں گے، مگر اب ہم اپنے اس ورثے پر ایک نظر ڈالیں اور دیکھیں تو استاد بڑے غلام علی خان کے بعد بھی کیسے کیسے نادر ہنرمند کلاسیکی موسیقی کے منظر نامے پر ابھرے، جنہوں نے پاکستان کو موسیقی کے خزانے کے شعبے سے مالامال کر دیا۔ روشن آراء بیگم، استاد امانت علی خان، استاد سلامت علی خان، استاد نصرت فتح علی خان، مہدی حسن اور ایسے کئی نگینے، جن کی گائیکی سے پاکستانی کلاسیکی موسیقی کا منظرنامہ تادیرروشن رہے گا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کا یہ موڑ پھر اپنے آپ کو دوہرا رہا ہے۔ جب سے عدنان سمیع کے ہندوستانی شہری ہونے کی تصدیق ہوئی ہے، پاکستانی شائقینِ موسیقی میں غم کے جذبات بھی ہیں تو غصے کے بھی، کیونکہ یہی وہ سماعتیں ہیں، جنہوں نے عدنان سمیع کو وہ مقام دیا تھا جس کی بدولت ان کی شناخت پوری دنیا میں ہوئی۔ عدنان سمیع نے اپنے میوزک کریئر کا آغاز 1986 میں کیا اور پہلی البم ”لائیو اِن کراچی“ ریلیز کی۔

عدنان سمیع کے پہلے البم میں ہی ہندوستان سے محبت کا پہلو موجود تھا۔ حیرت انگیز طور پر اس پہلے البم میں ان کی سنگت ہندوستانی سازندے ذاکر حسین کے ساتھ تھی۔ کچھ عرصے بعد معروف ہندوستانی گلوکارہ آشا بھوسلے کے نام کا سہارا لیا اور ان سے اپنے ایک مشہورِ زمانہ البم ”سرگم“ کے گانے گوائے، جبکہ پاکستان کے کئی معروف نام اس البم میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔

ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کے بعد اب وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کو کوئی بہت بڑی کامیابی مل گئی، تو اس کا فیصلہ وقت کر دے گا۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ عدنان سمیع خان کو مزید کامیابی کے حصول کا حق حاصل نہیں ہے، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پذیرائی ہندوستان میں زیادہ ہے اور وہاں رہنا ان کے کریئر کی کامیابی کی ضمانت ہے، تو ٹھیک ہے، ان کی مرضی ہے، وہ اس حوالے سے اپنی رائے رکھتے ہیں. لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں موسیقاروں کی پذیرائی نہیں ہوتی، یا یہاں کام کرنے والے فنکار کامیاب نہیں ہیں.

عدنان سمیع کے مداحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں پاکستان میں موجود ہے، مگر کسی کے جانے سے کیا ہوتا ہے، ایک سے ایک ہیرا پاکستانی موسیقی کو ورثے میں ملا ہے۔ حوالے کے لیے تازہ ترین گلوکار کا حوالہ دیکھ لیں، جس کی آواز میں ہنر کی چاندی دمکتی ہے۔

اس نوجوان کا نام سرمد قدیر ہے، پاکستان کے دارالخلافے اسلام آباد سے اس کا تعلق ہے۔ موسیقی کی جدید تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نوجوان نے اپنا اسٹوڈیو بنایا، اس میں موسیقی ترتیب دی، اپنے گیتوں کے دیدہ زیب ویڈیوز بنائے، نصیبو لال اور شازیہ منظور جیسی ثقافت میں رچی بسی آوازوں کے ساتھ جدید موسیقی کا امتزاج بنایا۔ اس نوجوان نے کم عمری میں نہ صرف گائیکی کا باکمال مظاہرہ کیا، بلکہ اسے منفرد دھنیں کمپوز کرنے پر بھی ملکہ حاصل ہے۔ اس کے ساتھ دیگر دھنوں کو بھی محسوس کرنا جانتا ہے۔

جس سرزمین پر استاد جھنڈے خان اور روشن آراء بیگم موجود ہوں، نور جہاں اور مہدی حسن، استاد نصرت فتح علی خان کی آوازوں کا خزانہ رہنمائی کے لیے موجود ہو، اسد امانت علی اور رفاقت علی کی آواز کے رنگ بکھرتے ہوں، جہاں میکال حسن جیسا نظرشناس موسیقار اور جاوید بشیر جیسی آواز گونج رہی ہو، وہاں کی موسیقی زوال پذیر نہیں ہوسکتی، وہاں کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔

استاد رئیس خان ویسے ہی ستار بجا رہے ہیں، عامر ذکی کا گٹار اسی طرح سُر تخلیق کر رہا ہے، استاد طافو کے طبلے کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی، شفقت علی خان کے پکے راگ سیدھے دل میں اسی طرح اتر رہے ہیں، استاد حسین بخش گلو اور عابدہ پروین کی کافیاں وہی تاثیر لیے موسیقی کے منظر نامے پر موجود ہیں، تو فرق کسے پڑا؟ انہیں جو چلے گئے، یا پھر وہ جو لمحہ موجود میں ہیں؟

پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کا منظر نامہ روشن ہے، راگ سے فیوژن تک ہم پوری دنیا میں چھائے ہوئے ہیں، اگر کوئی ہم سا ہے، تو سامنے لے آئیں، یہ تو صرف نئی نسل کے ابھرتے ہوئے نوجوانوں ملازم حسین اور سرمد قدیر کو ہی سہہ لیں، تو بہت ہے، بڑے اساتذہ کا تو ابھی ہم تذکرہ ہی نہیں کر رہے۔ جن پر زوال کی علامتیں طاری تھیں، وہ چلے گئے، ہمارے فنکار تو کلاسیکی موسیقی کے درخشاں ستارے ہیں، جو پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں اور روح جن کی گائیکی سے منور ہے۔ یقین نہیں تو سن کر دیکھ لیجیے۔

Read Comments