'پہلے گاتی تو بیٹیوں کی شادی نہ ہوتی'
سندھ کے صحرائی علاقے عمر کوٹ میں جب ہم مٹی سے بنے ہوئے ایک گھر میں داخل ہوئے تو مائی دھائی کی آواز میں تھر کے ایک مخصوص گیت نے ہمارا استقبال کیا، خوبصورتی سے سجے ڈھول کو بھی مائی دھائی خود ہی بجا رہی تھیں.
مائی دھائی نے گذشتہ برس کوک اسٹودیو سیزن 8 میں اپنے 2 گانوں کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل کی.
ہندوستانی ریاست راجھستان کے ضلع بارمر میں پیدا ہونے والی مائی دھائی نے گائیکی کا فن اپنی والدہ خند بائی سے وراثت میں پایا.
ان کی والدہ ہندوستانی صحرا کی ایک نامور لوک گلوکارہ تھیں، جو شادی بیاہ اور خوشی غمی کے موقع پر گیت گایا گرتی تھیں، اس فن کو ان کی بیٹی مائی دھائی ہجرت کے بعد پاکستان لے آئیں.
مائی دھائی کی کہانی کی ابتداء
زیادہ تر تھری لوگوں کی طرح مائی دھائی کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کا خاندان ہندوستان سے ہجرت کرکے کب پاکستان منتقل ہوا، واضح رہے کہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد سے 1965 تک ہندوستان سے لوگ پاکستان ہجرت کرتے رہے تھے.
مائی دھائی نے بتایا کہ بچپن میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ 'اپنے تھر میں' مقامی شادیوں میں جایا کرتی تھی، جہاں ان کی والدہ گیت گایا کرتی تھیں، اس طرح وہاں کے تمام گیت اور دھنیں ان کے ذہن میں نقش ہیں.
مائی ڈھاگی، جو اپنا نام بھی لکھنا نہیں جانتیں، اتنی سادہ ہیں کہ وہ تھر کو صرف 'اپنا تھر' کہتی ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ تھر پاکستان کا یا ہے یا سرحد پار کا.
اور ویسے بھی سرحدوں کی تقسیم نے یہاں کے لوگوں پر کچھ زیادہ اثر نہیں ڈالا کیونکہ دونوں طرف کی ثقافت قریباً یکساں ہی ہے.