Dawn News Television

شائع 29 فروری 2016 02:55pm

'سانپ ہمارے بچوں کو نہیں کاٹتا'

زندگی لامحدود اسراروں کا نام ہے۔ ان اسراروں کی پگڈنڈیوں پر اگر چل پڑیں تو ان کا اختتام کبھی نہیں ہوتا، بھلے چلتے چلتے آپ پر سے صدیاں گذر جائیں۔

کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز آپ کو دھوکہ اور فریب دے سکتی ہے، پر راستہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا وہ آپ کو کبھی دھوکا نہیں دیتا۔ دھوکہ تو آپ خود اپنے آپ کو دیتے ہیں، راستے کا انتخاب آپ کرتے ہیں، غلط مقام جا پہنچیں تو اس میں راستے کی کیا غلطی؟ دھرتی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے کے لیے گھر سے نکلتی پگڈنڈی ہی بہت ہے۔ نکل پڑیں منزل آ ہی جائے گی۔

دنیا کے سارے خانہ بدوش ان راستوں کے سحر میں ایسے جکڑے ہیں کہ صدیاں گذر گئیں پر ان کی دیوانگی میں کمی نہیں آئی۔ اب مجھے نہیں پتہ کہ جوگی 'دراوڑ' ہیں یا نہیں؟ یہ کس سمندر کا کنارا لے کر یہاں کب آکر بسے؟ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ 'بھریو گاروڑی' ان میں سے ہی تھا؟ مگر میں اتنا یقین سے جانتا ہوں کہ راستوں کا عشق ان کو ایک جگہ سکھ اور چین سے بیٹھںے نہیں دیتا۔

فطرت سے دوستی ان کے خون میں بہتی ہے۔ کیسری رنگ کا چوغا ان کی میراث ہے جو ان کو 'گرو گورکھ ناتھ' سے ملا ہے اور وہ اس رنگ کا تقدس جانتے ہیں۔ یہ کہیں کے بھی نہیں ہیں، پر یہ ہر جگہ کے ہیں۔ ساری دھرتی ان کی ہے اور یہ دھرتی کے ہیں۔

تپتی دوپہر ڈھلنے لگی تھی، میں جوگیوں کی بستی 'جوگی ویرو گوٹھ' پہنچا۔ گاؤں کے شمال میں سے تارکول کی ایک سڑک نکلتی جو مشرق کی طرف دور تک چلی جاتی، دھیان سے دیکھو تو ایک لمبے سیاہ سانپ کی طرح نظر آتی۔ راستے کے جنوب میں جوگیوں کی بستی سے بہت سارے بچے دوڑتے ہوئے آئے۔ ساتھ میں کچھ کتے بھی تھے جو یقیناً ہمیں ہی دیکھںے آئے ہوں گے۔

— فوٹو ابوبکر شیخ۔

پھر جب بچوں سے کہا کہ: "اس بستی کے بڑے کو بلا کر لاؤ۔" تو بچوں نے کچھ لمحے ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر ہنسے اور دوڑتے جھگیوں کی طرف چلے گئے۔ اور پھر گاؤں کا بڑا آیا اور ساتھ میں اور بھی بڑے آئے۔ خیر و عافیت کے بعد پتہ چلا کہ 'میوو جوگی' اس بستی کا بڑا ہے۔ کیسری رنگ کا چوغا اور پگڑی، گلے میں منکوں کا ہار، ڈھلتی جوانی اور چہرے پر سنجیدگی کے ساتھ شفقت کی لالی جو بات کی آخر میں اس کے چہرے پر بکھر سی جاتی۔

میوو جوگی نے بتایا کہ وہ گرناری فقیر ہیں۔ جب 'گرنار' کی بات ہوتی ہے تو یہ اشارہ سمجھ لینا چاہئے کہ گرو گورکھ ناتھ کا ذکر ہو رہا ہے جو گیارہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئے۔ وہ بنیادی طور پر بدھ مت سے تعلق رکھتے تھے اور وہ بڑے سیلانی تھے۔ افغانستان، بلوچستان، پنجاب، سندھ، اتر پردیش، اتراکھنڈ، آسام، بنگال، اڑیسہ سمیت کاٹھیاواڑ (گجرات)، مہاراشٹر، کرناٹک، اور یہاں تک کہ سری لنکا تک ان کی یادگاریں ملتی ہیں۔ پھر سپیروں کے 'گوگو چوہان' کی بھی کتھا 'گرو گورکھ ناتھ' سے جڑی ہے۔

'گوگا جی' راجا جیوڑ سنگھ کا بیٹا تھا۔ راجا کی بیوی 'باچل' کو اولاد نہیں ہوتی تھی، اس لیے اس نے، گورک ناتھ کی کئی برسوں تک خدمت کی، تب گرو گورک ناتھ نے اسے دعا کے طور پر ایک جڑی بوٹی دی جس سے باچل کی گود ہری ہوئی اور گوگا پیدا ہوا۔ کیونکہ باچل کی جڑواں بہن 'کاچل' اپنی بہن سے جلتی تھی، اس لیے ہمیشہ اس کے خلاف سازشیں کرتی رہتیں، بہرحال جب گوگا بڑا ہوا اور اسے پتہ چلا کہ کاچل اس کی ماں باچل سے بری طرح پیش آئی ہے تو اس نے کاچل کے بیٹوں کو قتل کردیا۔

یہ بات باچل کو انتہائی بری لگی جس کی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ یہ بہت غلط کام کیا تم نے، اس لیے آج کے بعد مجھے اپنا چہرہ مت دکھانا۔ گوگا کے لیے ماں کا یہ رویہ انتہائی پریشان کرنے والا تھا۔ اس لیے وہ گورک ناتھ کے پاس گیا اور اسے سارا قصہ سنایا۔ یہ بات سن کر گورک ناتھ نے اپنے چمٹے سے اسے اور اس کے گھوڑے کو پتھر کا بنا کر سمادھی میں بدل دیا۔

— فوٹو ابوبکر شیخ۔

سپیرے اسے 'گوگا ویر' کہتے ہیں اور سانپوں کا سب سے بڑا دیوتا مانتے ہیں۔ اور جب کوئی قسم اٹھانی ہو تو گوگو چوہان کی قسم اٹھاتے ہیں۔ میں نے جب میرے نزدیک بیٹھے ہوئے رانو جوگی سے پوچھا کہ "سانپ دودھ پیتے ہیں؟"

"ہاں کیوں نہیں پیتے۔ بالکل پیتے ہیں۔ اور پانی بھی پیتے ہیں۔"

"پھر کچھ کھاتے بھی ہوں گے؟"

"ہاں کیوں نہیں کھاتے" رانو نے یہ کہہ کر میری طرف دیکھا۔ کچھ لمحوں تک وہ کچھ نہیں بولا۔ مجھے یقین تھا وہ کچھ نہیں بولے گا جب تک میں یہ نہ پوچھوں کہ "اچھا سانپ کھاتے بھی ہیں؟ کیا کیا کھاتے ہیں؟"

"انڈے کھاتے ہیں، گوشت کھاتے ہیں، ہم سانپ کو جو گوشت کھلاتے ہیں وہ بالکل چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے دیتے ہیں۔ ہم انسانوں کا پیٹ ہے تو ان ناگ دیوتاؤں کو بھی تو بھوک لگتی ہوگی۔" رانو جوگی کے اس جواب سے اس کی آنکھوں میں سانپوں کے لیے ایک شفقت کی لہر سی ابھری۔

— فوٹو ابوبکر شیخ۔

باتوں باتوں میں یہ بھی پتہ چلا کہ یہ سانپوں کے دانت نہیں نکالتے اور بڑے اعتماد سے یہ بھی کہا کہ سانپ ہمارے بچوں کو نہیں کاٹتا، اور اگر کاٹ بھی لے تو ہم پریشان نہیں ہوتے، کیونکہ جیسے بچہ پیدا ہوتا ہے تو ہم اسے تریاق کی ایک معمولی مقدار مقرر دنوں تک دیتے رہتے ہیں جس سے اس کے جسم میں سانپ کے زہر کے خلاف ایک قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔

مجھے نہیں پتہ اس بات میں کتنی حقیقت ہے، مگر جب میں نے بچوں اور بڑوں کو سانپوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو یقیناً حیران اور تھوڑا پریشان ہوا اور حیران پریشان ہونا میرا بنیادی حق ہے۔

سندھ کے جوگیوں پر تحقیق کرنے والے محترم پریتم پیاسی تحریر کرتے ہیں: "لفظ یوگ جس کا مطلب تپسیا کرنا ہے، یوگ سے جوگ بنا، اس وقت جوگی باقاعدہ ایک ذات ہے، ٹھٹہ کی طرف کچھ جوگی مسلمان بھی ہوئے ہیں پر انہوں نے سانپ پکڑنا اور پالنا نہیں چھوڑا ہے۔

"ہندو جوگیوں میں بھی بہت سارے فرقے ہیں، البتہ مشہور جوگی "ناتھ پنتھی" ہیں، جو ایک جگہ نہیں بیٹھتے۔ آج یہاں تو کل وہاں۔ یہ یوگیوں کی طرح کیسری رنگ کا لباس پہنتے ہیں مگر ہر وقت نہیں۔ جس وقت وہ بھیک مانگنے جاتے ہیں اس وقت یہ کانوں میں بڑے پیتل کے بالے پہنتے ہیں جن کے پہننے کے لیے ان کو کانوں میں بڑے سوراخ چھدوانے پڑتے ہیں، ان کی وجہ سے ان کو 'کن پھاڑ' بھی کہا جاتا ہے۔"

یہ جوگی اپنی نسل گرو گورک ناتھ سے جوڑتے ہیں۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ان جوگیوں کو "سر رامکلی" میں خوب گایا ہے۔

"سجدۂ شوق میں جھکی ہے جبیں، انہیں پابندیء وضو بھی نہیں،

سن چکے ہیں وہی اذان جوگی، قبل اسلام جو ہوئی تھی کہیں،

اور کوئی رہا نہ ان کے ساتھ، مل گئے جب سے پیارے گورکھ ناتھ۔"

"شام ہی سے وہ کیوں نہ سو جائِیں، جاگنا جن کو اک مصیبت ہے،

ہاں مگر وہ غریب لاہوتی، جاگتے رہنا جن کی عادت ہے،

کس طرف اپنے پاؤں پھیلائیں، ہر طرف قبلۂ حقیقت ہے۔"

ان جوگیوں کی شادی بیاہ کی رسمیں دوسرے مارواڑیوں جیسی ہیں البتہ یہ جب اپنی بیٹی بیاہ کردیتے ہیں تو جہیز میں بیٹی کو سانپ، گدھا، کتا، اور سانپ کا منکا ضرور دیتے ہیں۔ اس سے فطرت سے قریب جہیز میں نے کبھی نہیں سنا۔ مطلب یہ ان کے سماج کی جڑیں ہیں جن کو یہ کسی طرح بھی کھونا نہیں چاہتے۔

— فوٹو ابوبکر شیخ۔

یہ اپنی قدیم روایتوں کو دل کی گہرائیوں سے محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ ایسی قومیں اور قبیلے اس دھرتی پر ایک بہت بڑا وقت بغیر خوف و خطرے کے گذار سکتے ہیں جن کو اپنی ان جڑوں سے انسیت ہے جو وقت نے ان کے آباء و اجداد کے ہاتھوں ان کو تھمائی تھیں۔

تھر کی سفید ریت پر رلیاں بچھی تھیں اور ہم ان پر بیٹھ کر شام ڈھلے جوگیوں سے باتیں کرتے۔ ہمارے سامنے بھی رلیاں بچھی تھیں جن پر سانپوں کی پٹاریاں کھلی تھیں اور سانپ ان رلیوں پر رینگتے۔ اور مرلی کی دھن میں ایک سحر ہوتا جو شام کی لالی میں گھل کر اور گاڑھا ہوتا جاتا۔

جوگیوں کو شکایت تھی کہ وہ پہلے والے دن نہیں رہے۔ لوگوں میں نہ سانپ دیکھنے کی وہ دلچسپی رہی ہے اور نہ ہاتھ دکھانے یا قسمت جاننے کا شوق بچا ہے۔ جنگل کم ہوتے جا رہے ہیں، ناگ دیوتاؤں کے لیے زمین سکڑتی جا رہی ہے۔

جوگیوں کی شکایت درست تھی، ہم نے جو ترقی کے گھوڑے کو پر سوار ہوئے ہیں اور اپنے وسائل اس کو کھلانے شروع کیے ہیں تو زمین پر تو منفی اثرات مرتب ہونے ہی ہیں۔ سمندر کی سطح گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ زمین پر خشکی بچی کتنی ہے؟ سب ترقی کے نظر ہو رہا ہے۔

جوگی کا شکوہ میں نے سنا۔ میرے پاس جواب نہیں تھا۔ سورج ڈوب رہا تھا۔ سانپ اب انڈے کھائیں گے، دودھ پیئں گے اور پٹاری میں لمبی تان کر سوئیں گے۔ میں بھی اٹھا، جوگیوں سے اجازت لی، اور چل پڑا۔

Read Comments