Dawn News Television

شائع 05 مارچ 2016 02:24pm

غیر اہم سوال

میری عادت ہے کہ بچوں سے ان کے تعلیمی معاملات کے بارے میں بات کروں۔ کیونکہ میرے اپنے بچے نہیں ہیں اس لیے یہ شوق بہن بھائیوں کے بچوں پر پورا کرتا ہوں اور کبھی کبھار تو محلے کے بچے بھی ان سوالوں سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔

ابھی پچھلے ہفتے ہی اپنے بھتیجوں سے کہا لاؤ ذرا ہوم ورک دکھاؤ، بچے کتابیں لے آئے، انہوں نے جو مجھے بتایا وہ میرے لیے حیران کن ہے۔ انگلش کی صرف ریڈنگ کروائی جاتی ہے، اس کا ترجمے کے ساتھ مطلب نہیں بتایا جاتا۔ اردو کی کتاب کے کچھ اسباق اور صرف چند نظمیں پڑھائی گئی ہیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ میتھ کی کچھ مشقیں کروائی گئی ہیں اور کچھ نہیں، ایک بات واضح نظر آ رہی تھی کہ تقریباً ہر مضمون کی کتابوں سے کئی حصے چھڑوا دیے جاتے ہیں۔

ابھی کل اپنے بھانجوں کے پاس اوکاڑہ آیا ہوں اور میرا چھوٹا بھانجا جو آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے لیکن سلیبس نویں جماعت کا پڑھ رہا ہے۔ اس سے بائیولاجی کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ اس سے کنزرویشن کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کی صرف ہیڈنگ یاد کرنی ہے، ٹیچر نے یہی کہا ہے۔

پڑھیے: مِس امپورٹنٹ سوال بتا دیں!

اب بھلا استاد ایسا کیوں کرنے لگے کہ کچھ پڑھاتے ہیں اور کچھ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ غیر اہم ہے۔ اور یقیناً وہ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ پچھلے کئی سالوں سے کئی امتحانات دیکھ چکے ہوں گے اور ان کو پتہ ہے کہ ممتحن کیا پوچھ سکتا ہے، اس لیے وہ بچوں کو سبق بھی وہی یاد کرواتے ہیں جو امتحان میں آنا ہے، حالانکہ کنزرویشن اور بائیوڈائیورسٹی دنیا کے اہم ترین تحقیقاتی معاملات ہیں، جن پر بے شمار تحقیق اور پراجیکٹس ہو رہے ہیں۔

اسی طرح ہمارے ایک وکیل دوست نے بھی بتایا کہ پرانے پیپرز دیکھ کر تیاری کر لی جاتی ہے اور پیپر حل ہو جاتا ہے۔ یہ سن کر میرے ذہن میں سوال آیا کہ اگر وکلاء کے سامنے کمرہء عدالت میں ایسا مقام آئے، کہ جہاں انہیں اسی نکتے کی ضرورت پڑے جو انہوں نے امتحانات کے لیے غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیا تھا، تو پھر؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا صرف امتحان پاس کرنا ہی مقصد ہے؟ اگر یہی مقصد ہے تو منتخب سوالات یاد کرنے سے یہ پورا ہو جاتا ہے، لیکن اس روش کا نقصان اس وقت سامنے آتا ہے، جب عملی زندگی میں اس چیز کی ضرورت پڑتی ہے جو ہم نے یا تو غیر اہم قرار دے کر چھوڑ دی تھی، یا اسے صرف 'یاد' کیا تھا، سمجھا نہیں تھا۔

فی زمانہ منتخب پڑھائی یا 'سلیکٹو سٹڈی' کے اس رواج میں سب سے زیادہ حرج بچوں کا ہو رہا ہے۔ بچوں کو امتحان میں نمبر لینے کی تربیت دی جا رہی ہے مگر ان کو مضامین سمجھائے اور سکھائے نہیں جا رہے۔ یہ انتہائی قابل تشویش ہے۔

مصروفیات میں الجھے والدین ایسا کہاں سوچتے ہیں کہ بچہ کون سے مضامین کتنے پڑھ رہا ہے، اور کتنے اس کے اساتذہ نے گیر اہم قرار دے دیے ہیں۔ ان مضامین میں کون سے موضوعات تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے اہم ہیں، وہ یہ بات نہیں جانتے۔

ان تک تو امتحان کے نتائج آتے ہیں جس میں بچے کی پوزیشن دن بدن بڑھتی نظر آتی ہے۔ شنید ہے کہ کچھ پرائیوٹ اسکول بچوں کو امتحانی سوال اچھی طرح یاد کروا کے اسی کا متحان لے کر اچھے نمبرز عنایت کر دیتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کے سو میں ننانوے نمبر دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسے بچوں کے پاس چند رٹے رٹائے اعداد و شمار کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیے: کیا تعلیم کا مقصد صرف نوکری ہے؟

اسی نمبر گیم کا اگلا مرحلہ بچوں کو اگلی جماعت کا سلیبس دو دفعہ پڑھا دینا ہے، جیسے آٹھویں جماعت میں نویں کا سلیبس پڑھانا، نویں میں دسویں کا سلیبس پڑھانا اور دسویں میں اسی سلیبس کو پڑھا کر بچوں کو بورڈ کے پیپر دلوا دینا۔ جی ہاں جس سلیبس کی تیاری آپ نے دو سال کر رکھی ہوتی ہے آپ اس میں کچھ بہتر نمبر لے سکتے ہوں گے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نظام تعلیم کا مقصد صرف اور صرف امتحانات میں زیادہ سے زیادہ نمبر دلوانا ہے؟

آج کل جس طرح کے پیپرز آ رہے ہیں، جیسے مختصر سوالوں کا رواج ہے اور بچوں کی اس موضوع سے متعلق فہم جاننے والے سوال پوچھے نہیں جاتے, اور بچے دو جمع دو چار جیسے سوال و جواب رٹ کر ایک ہزار میں سے نو سو نوے نمبر لے لیتے ہیں, کیا اس نظام کے ذریعے ہم بہتر طالب علم پیدا کر رہے ہیں، کیا سلیکٹو سٹڈی ایک تیر بہدف نسخہ ہے؟

میرے خیال میں ہم اپنے بچوں کے تخیل کے قاتل ہیں، اور انہیں نمبروں کی دوڑ میں شامل کر کے علم سے دور کر رہے ہیں۔ آٹھویں میں نویں جماعت کو رٹوا کر ہم بچوں پر جو زائد بوجھ لادنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے بچوں کی علمی بنیادوں میں بہت سی کجیاں رہنے کا احتمال ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بچوں کے پاس کورس کے علاوہ غیر نصابی چیزیں پڑھنے کا وقت بہت کم رہ جاتا ہے۔

ہم لوگ اپنے بچوں کے لیے مغربی نظامِ تعلیم کے بہت خواہشمند ہوتے ہیں، مگر جب مغربی نظامِ تعلیم یہاں آتا ہے، تو اس کی ہیئت ہی بگڑ جاتی ہے۔ ان ملکوں میں ایک توازن ہوتا ہے، جس میں نہ صرف بچے کی تعلیم بلکہ تصورات کی آبیاری کا کام بھی کیا جاتا ہے۔

کیونکہ میں ایک عرصہ وہاں رہا ہوں، اور میرے کئی رشتے دار ابھی بھی وہاں مقیم ہیں، اس لیے میرا وہاں کے بچوں سے کافی واسطہ رہا ہے۔

جانیے: ڈگری یافتہ یا تعلیم یافتہ؟

وہاں کے بچے اعداو شمار میں بہت تیز نہیں ہوتے، مگر معاملات کو جانچنے اور تجزیہ کرنے کی ان کی صلاحیت ہمارے بچوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ میری ایک بھانجی ناروے میں رہتی ہے جو اب ساتویں جماعت کی طالبہ ہے۔ مجھے یہ نہیں پتا کہ وہ اسکول میں کیا پڑھ کر آتی ہے کیا نہیں، لیکن اس نے مجھے بتایا کہ وہ اب تک اپنے کورس کے علاوہ پچاس کے قریب کتابیں پڑھ چکی ہے۔

میں نے کہانیوں کی وہ کتابیں دیکھی ہیں جنہیں کتابچہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا، لیکن ہمارے بچے جو کورس ہی بمشکل پڑھ پاتے ہیں، کیا وہ اضافی کتابوں کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

سکینڈے نیوین ممالک کے چھوٹے بچوں کے اسکولوں میں بھی امتحانات میں اعداد و شمار رٹوانے کے بجائے بچوں کی ذہن سازی پر توجہ دی جاتی ہے۔ ہمارے ایک دوست جو کوپن ہیگن یونیورسٹی میں پڑھتے رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے امتحانات اوپن بک سسٹم کے تحت لیے گئے، جس میں آپ کتاب کھول کر مدد لے سکتے ہیں۔

لیکن کتاب کھول کر جواب دینا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا کہ آپ سوچ رہے ہوں گے، کیونکہ بھلے اس امتحان میں آپ کتابوں اور نوٹس کی مدد لے سکتے ہیں، مگر اسے حل کرنے کے لیے ایسے تجزیے اور تنقیدی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے، کہ انسان اچھے بھلے امتحان میں پڑ جاتا ہے۔

مگر کیا اوپن بک امتحان جیسا سسٹم ہمارے ہاں کامیاب ہو سکتا ہے؟ شاید کبھی نہیں، کیونکہ یہاں پر سوالات کو سوچ کر حل کرنا نہیں بلکہ یاد کر کے حل کرنا سکھایا جاتا ہے، جس کے لیے گیس پیپرز اور غیر حل شدہ پرچہ جات کافی ہوتے ہیں۔

Read Comments