نقطہ نظر

کمال کی باتیں اور کھویا ہوا آدمی

کمال احمد رضوی بطور ڈراما نگار اپنا لوہا تو منوا ہی چکے تھے، مگر انہیں اپنی یادیں سمیٹ کر رکھنے پر بھی قدرت حاصل تھی۔

کمال احمد رضوی کی رحلت نے جہاں سب کو اداس کردیا، وہیں ان کی شخصیت اور کام کی جس طرح تحسین کی گئی، اس سے ان کے خاندان، دوستوں اور چاہنے والے کے لیے خوشی کا تاثر اُبھرا۔ کمال احمد رضوی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب 'کمال کی باتیں' کی اشاعت ہوئی جبکہ خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) کراچی میں ان کا کھیل 'کھویا ہوا آدمی' پیش کیا گیا۔

کمال احمد رضوی بطور ڈراما نگار اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا تو منوا ہی چکے تھے، مگر انہیں اپنی زندگی کی یادیں سمیٹ کر رکھنے پر بھی قدرت حاصل تھی، جس کا اظہار حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ انہوں نے کمال مہارت سے پاکستان کی کئی نامور شخصیات کے خاکے لکھے ہیں، جن کو پڑھ کر ہمارے سامنے ان کی خاکہ نگاری کا روشن پہلو بھی سامنے آتا ہے۔

یہ کتاب 'کمال کی باتیں' کے نام سے شائع ہوئی اور اس کے ناشر اٹلانٹیس پبلی کیشنزہیں۔ کتاب تین حصوں پرمشتمل ہے۔ پہلے حصے میں ان کی شریک حیات اور دوستوں کی تاثراتی تحریریں ہیں۔

ان کی بیگم عشرت جہاں رضوی کی تحریرسے کمال صاحب کی زندگی کے آخری دنوں پرروشنی پڑتی ہے جبکہ ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کی تحریر پڑھنے کے بعد کمال صاحب کی خاکہ نگاری کی صنف پر دسترس کا راز سمجھ آتا ہے اور تحریروں کے پس منظر اور مجموعی مزاج سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔

. کتاب کا سرورق۔

دیگر دو تحریریں ایس ایم شاہد اور راشد اشرف کی ہیں، جو تعزیتی نوعیت کی ہیں۔ ان کو کتاب کے آخری حصے میں شامل کیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا۔

کتاب کا دوسرا اور مرکزی حصہ کمال صاحب کی تحریروں پر مبنی ہے جس میں انہوں نے شخصی خاکے لکھے اور ان کے ساتھ اپنے خصوصی مراسم اور یادوں کا تذکرہ کیا۔ ان شخصیات میں فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو، احمد پرویز، انیس آپا، حفیظ جاوید، حمید کاشمیری، انور جلال شمزا، معین نجمی، عمر تھانوی، صفدر میر، شاکر علی، شوکت حسین رضوی، سبطِ حسن، ستارہ بائی کانپوری، تجمل بھائی اور روشن علی بھیم جی شامل ہیں۔

پاک ٹی ہاؤس اور الحمرا میں گزرتے دنوں کی یادوں کا تذکرہ بھی شامل کتاب ہے۔ روس کے ایک عالمی شہرت یافتہ ادیب ترگنیف کی شخصیت اور فن پر بھی لکھا ہوا مضمون اس کتاب کا حصہ ہے۔

پڑھیے: اک شخص کتابوں جیسا تھا

کمال صاحب نے ان خاکوں میں منٹو اور ستارہ بائی کانپوری کے خاکے لکھ کر خود کو نثری جادوگری کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ فیض، انیس آپا اور شوکت حسین رضوی کے خاکوں میں ان کی اپنی زندگی کی جدوجہد اور ریاضت صاف دکھائی دیتی ہے۔ تجمل، سبط حسن، معین نجمی اور دیگر کے بارے میں لکھتے ہوئے ان کے مشاہدے، اخلاص اور تجربات کی گہری پرچھائیاں محسوس کی جاسکتی ہیں۔

ان کو پڑھتے ہوئے ہم اُسی زمانے میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں کمال صاحب اپنی منزل تک پہنچے کے لیے راستے تلاش کر رہے تھے۔ ہمیں انہوں نے سلیس اور رواں نثر کے ذریعے عہدِ گزشتہ سے جس طرح جوڑ دیا، وہ صرف ڈراما نگاری، ہدایت کاری اور اداکاری کے شعبے میں ہی نہیں بلکہ خاکہ نگاری میں بھی ہمارے محسن رہیں گے۔

کتاب کے تیسرے اور آخری حصے میں کمال صاحب کی وفات کے بعد ان پر لکھی گئی تعزیتی تحریریں شامل ہیں۔ یہ آخری حصہ اضافی محسوس ہوا۔

کتاب کے متن میں شخصیات کی عہد وارترتیب کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کمال صاحب نے اُس وقت کے حالات و واقعات کو جس طرح پیش کیا تھا، اُسی ترتیب سے ان شخصی خاکوں کو مرتب کیاجاتا۔ مثال کے طور پر منٹو اور شوکت حسین رضوی بعد میں آتے ہیں، جبکہ فیض صاحب پہلے، اس طرح قاری کو بار بار فلیش بیک میں جانا پڑتا ہے۔ کتاب میں موجود فہرست کے لحاظ سے اکثر صفحات کے نمبرز بھی غلط ہیں، جن سے قاری کو مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری طرف نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کراچی نے کمال احمد رضوی کا لکھا ہوا کھیل 'کھویا ہوا آدمی' پیش کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ اس ادارے کے سربراہ ضیا محی الدین اور کمال احمد رضوی ہم عصر تھے، اور دونوں کو ایک دوسرے کا فریق مخالف بھی سمجھا جاتا رہا، مگر اس کے باجود ناپا کا کمال احمد رضوی کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ایک احسن اقدام ہے، جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ ضیا محی الدین اور ناپا کی انتظامیہ اس پر مبارک باد کی مستحق ہے۔

کمال احمد رضوی کے لکھے ہوئے اس کھیل کی ہدایات خالد احمد نے دیں، جو خود بھی منجھے ہوئے اداکار اور ہدایت کار ہیں۔ اداکاروں میں ناپا سے فارغ التحصیل طلباء اور اداکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، جن میں فواد خان، ایمن طارق، اویس منگل والا، زرقا ناز، آسیہ عالم اور شمائلہ تاج شامل تھیں۔

اس کھیل میں ایک متوسط طبقے کی زندگی کے نشیب و فراز کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک ہنستا بستا خاندان بے روزگاری کے ہاتھوں معاشی تنگ دستی کا شکارہوتا ہے۔ پہلے شوہر اور پھر بیوی حالات کی ستم ظریفی کے ہاتھوں ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہے۔

کھیل معاشی بدحالی کا شکار ایک متوسط طبقے کے خاندان کے گرد گھومتا ہے۔— فوٹو بشکریہ ناپا۔

عزیز و اقارب بھی معاونت کرنے کی نیم دلانہ کوششیں کرتے ہیں، لیکن کوئی بھی سبیل کام نہیں آتی۔ آخرکار دونوں ذہنی طور پر اپنے حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ کراچی میں نوے کی دہائی میں ایک ہتھوڑا گروپ کی بہت دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ اس کھیل کے اختتام پر یہ دونوں بھی اسی گروپ کے اراکین کا روپ دھار لیتے ہیں، جو معاشرے سے اپنی محرومیوں کا بدلہ لیتا ہے۔

یہ کہانی ہمارے معاشرے کے زمینی حقائق کو بیان کرتی ہے، جس کو کمال احمد رضوی نے انتہائی خوبصورت انداز میں لکھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ہر مکالمے میں کمال صاحب کے مزاج کی کھنک محسوس ہوتی ہے اور جن مسائل پر روشنی ڈالی گئی، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمال صاحب کے اندر کا آدمی بھی ایسا ہی ایک کھویا ہوا انسان تھا جس کو معاشرتی زوال کی زبوں حالی اندر ہی اندر سے کھا گئی۔ یہ کھیل کمال احمد رضوی کے لکھے ہوئے شاندار کھیلوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔

کھیل کی ہدایات خالد احمد نے دیں اور مرکزی سے لے کر معاون اداکاروں تک پوری ٹیم نے زبردست کام کیا۔ — فوٹو بشکریہ ناپا۔

کھیل کے مرکزی کرداروں کو فواد خان اور ایمن طارق نے نبھایا اوربہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ فواد خان نے مکالمے اداک رنے کے علاوہ جسمانی حرکت و سکنات کے ذریعے کردار کے تقاضوں کو بخوبی نبھایا۔ ایمن نے بھی ان کا خوب ساتھ دیا۔ دونوں کی ذہنی ہم آہنگی اس مشکل کھیل کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوئی۔

ان دونوں کو اس کھیل کی کہانی اتنی سحر انگیز محسوس ہوئی، اسٹیج پر کھیل پیش کرنے کے بعد بھی یہ دونوں کئی گھنٹوں تک اس کے حصار میں رہتے، جس کی داد یہ کمال صاحب اور خالد احمد کو دیتے ہیں۔ ثانوی کرداروں میں دیگر اداکاروں نے بھی اپنے کام سے انصاف برتا، خاص طورپر اویس منگل والا نے اپنے کردار کو بہت جم کر ادا کیا، جس سے اسٹیج پر کہانی مزید جاندار ثابت ہوئی۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔