Dawn News Television

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2016 07:23pm

میرے دیس کی خانزادیاں

جیکب آباد کی خانزادی کی آخری تصویر کسی بھی مہذب معاشرے کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ عروسی جوڑے میں ملبوس دلہن جس کے ہاتھ لال مہندی سے رچے تھے، اس کی کلائی میں موتیوں اور کپڑے کے پھولوں سے بنا کنگن یا گانا بندھا ہوا تھا۔ اس کے لبوں پر لالی ابھی تک لپک رہی تھی اور تصویر کے نیچے یہ لکھا ہوا تھا کہ ’’جیکب آباد میں سہاگ رات کو شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی خانزادی کی لاش‘‘۔

اب شاید اس دیس میں کسی دلہن کو سہاگ رات پر غیرت کے نام پر قتل کرنے کی خبر بھی غیر اہم ہوتی جا رہی ہے۔ سماج اس بہیمانہ قتل کو اپنے چہرے پر لگا طمانچہ محسوس نہیں کرتا کیونکہ اب اس دیس کی کئی خانزادیوں کے بارے میں اس طرح کی خبریں آنا بھی تو ایک معمول سا بن گیا ہے۔

اب ہمارے معاشرے میں ایسے نام نہاد غیرتمندوں کی تعداد بھی تو دن بہ دن اسی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس رفتار سے جہالت اس سماج کی جڑیں کھوکلی کر رہی ہے۔ اور یہی تیز رفتار جہالت یہاں ہنستی بستی کئی معصوم خانزادیوں اور شہزادیوں کو اپنی خوراک بنا رہی ہے۔

جیکب آباد کی بدنصیب خانزادی تو اپنی رضا سے اس کی شریک حیات بنی تھی جس نے شادی کی پہلی رات ہی اس کی پاکدامنی پر شک کر کے اس کی روح کو نکال دیا تھا۔ خانزادی کی 19 بہاریں اپنے بابا کے آنگن میں محفوظ گزریں اور بیسویں بہار آتے ہی اس کے بابا نے یہ سوچ کر اپنی بیٹی کو سندھی کہاوت کے بقول 'شیر کے کاندھے' پر چڑھایا کہ جو خوشیاں اس گھر میں اس کو نصیب نہ ہو سکیں وہ اپنے شوہر کے گھر دیکھ سکے گی، لیکن خانزادی کو کیا پتہ تھا کہ وہ شیر کے کاندھے پر نہیں بلکہ کسی بھیڑیے کے ہاتھ لگ گئی ہے۔

پڑھیے: پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر سات سال میں تین ہزار قتل

خانزادی، شہزادی، بادشاہ زادی، حاکم زادی یا رانی یہ نام بھی عجیب ہی ہیں۔ یہ تمام نام سندھ اور بلوچستان سمیت ملک کے اکثر گاؤں گوٹھوں میں عام ملتے ہیں۔ زمینوں میں ننگے پاؤں ہل چلانے اور کھیتی باڑی کرنے والے کسان، پیٹ پالنے کے لیے دیہاڑی لگا کر روزی روٹی کی فکر کرنے والے غریب حال مزدور اپنی آنکھوں میں اپنی بیٹیوں کی خوشحالی کا خواب سجا کر ان کے ایسے نام رکھتے ہیں۔

مشہور افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار امر جلیل نے سندھی ڈرامے 'مٹی جا مانڑھوں' (مٹی کے لوگ) میں غلامو ڈاکیے کے بیٹے کا نام حمیر بادشاہ اور بیٹی کا نام شہزادی رکھ کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح غریب اور بے پہنچ لوگ اپنی خواہشات کی تکمیل ناموں سے پوری کرتے ہیں۔

امر جلیل اپنے ڈرامے میں ایک کردار سے کہلواتے ہیں کہ ''میرا نام رکھا گیا ہے حمیر، سندھ کا والی حمیر سومرو۔ سندھ کا والی پھٹیچر اسکول کا پھٹیچر استاد ہے اسی طرح میری بہن کا نام شہزادی ہے اور سارا دن گھر کے برتن دھوتی ہے اور صفائی کرتی رہتی ہے۔''

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں یہ سب شہزادیاں، خانزادیاں اور حاکم زادیاں تو اپنے بابل کے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہوتیں۔

اس طرح کے کئی واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں جس میں اپنے باپ اور بھائیوں کے ہاتھوں خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوجاتی ہیں اور وہی محفوظ پناہ گاہیں ان خواتین کی جنازہ گاہ بن جاتی ہیں۔

یہ کسی ایک شہر، ایک لڑکی، ایک دلہن، ایک قتل، ایک قاتل یا ایک مقتول کی بات ہی نہیں۔ لاہور سے لنڈی کوتل، مری سے مٹھی اور سندھ سے جموں و کشمیر تک کئی خانزادیوں نے اپنے خون سے کئی کہانیاں رقم کی ہیں۔

جس دن پاکستان کے لیے دو مرتبہ اچھی خبر دینے والی اور دنیا میں نام روشن کرنے والی شرمین عبید غیرت کے نام قتل پر اپنی دستاویزی فلم پر آسکر ایوارڈ وصول کر رہی تھی اسی دن لاہور شہر میں رحمت نامی شخص نے اپنی 18 سالہ بیٹی کومل بی بی کو غیرت کا لبادہ اوڑھے اس لیے قتل کر دیا کہ اس بچی نے اپنے باپ کے سوال کا ٹھیک جواب نہیں دیا تھا۔ اس سے شاید ایک دن پہلے لاہور کی عدالت نے دو بھائیوں کو موت کی سزا بھی اس جرم میں دی تھی جنہوں نے اپنی بہن صبا کو پسند کی شادی کرنے پر اس کے شوہر کے ساتھ قتل کر دیا تھا۔ یہ خبر 28 فروری کو رپورٹ ہوئی، جبکہ 11 جنوری کو رحیم یار خان میں غیرت کے نام پر قتل کی دو وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔

مزید پڑھیے: 'غیرت کے نام' پر بیوی کی ناک، بال کاٹ دیے گئے

سندھ کے شہر ڈہرکی میں ایک قبرستان بھی ''کالیوں کا قبرستان'' کہلاتا ہے۔ وہاں ان عورتوں کو بغیر غسل اور کفن کے دفنایا جاتا ہے جو اپنے بھائی، باپ یا شوہر کے ہاتھوں کلہاڑیوں یا کلاشنکوفوں کی خوراک بنتی ہیں۔

غیرت کے نام پر وحشیانہ انداز میں قتل کی گئیں ان خواتین کی قبروں پر پانی چھڑکنا، دعا کرنا اور پھولوں کی چادر چڑھانے پر غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ مقتول خواتین کے کسی رشتے دار کو ان کی قبروں پر کھلے عام جانے کی اجازت نہیں ہے۔

جدید میڈیکل سائنس کے دور میں ان دقیانوسی اور زمانہ جہالت کی جان لیوا رسومات پر کبھی سندھ کے جاگیردارانہ سماج میں پلے بڑھے کسی پارلیمنٹ میمبر، وزیر یا مشیر سے بات کرنے کا تجربہ کر لیں، ان کی اکثریت ہاں، نہ، چونکہ، چنانچہ سے ہی جواب دے گی، اور بات گول مول کر دی جائے گی۔

مجھے پرویز مشرف کے دور میں قومی اسمبلی کے وہ دن یاد ہیں جب کشمور سے منتخب سرکاری میمبر اور پارلیمانی سیکریٹری غیرت کے نام پر قتل کو جائز کہہ کر اسمبلی سے واک آؤٹ کر کے چل دیے تھے۔ ایک اور رکن اسمبلی کو بھی میں جانتا ہوں وہ بھی اس قسم کے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں۔

سندھ میں اس طرح کی وارداتوں میں کمی نہ آنے کا ایک سبب یہ رجعت پسند، بھوتار، سرکاری وڈیرے اور جاگیردار ہیں جو کسی کو کاری یا کارو قرار دینے کے بعد فل اسٹاپ تو لگاتے ہی نہیں۔ ان واقعات کے بعد تو ان فتویٰ بازوں کی دکانداری چمک اٹھتی ہے۔ ایک الزام کے بعد جرگے شروع ہو جاتے ہیں اور پھر برادریوں کے جھگڑے، اس کے بعد صلح صفائیوں اور ایک کے بعد ایک جرگے کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔


          انسانی حقوق کمیشن کے مطابق سال 2015 میں غیرت کے نام پر 1354 لوگوں کاقتل ہوا جن میں 1096 خواتین، 88 مرد اور 170 بچے بھی شامل ہیں۔         

دوسری طرف ہمارا کمزور قانون اور بے باک پولیس کا نظام ہے۔ اکثر ان مقدموں میں دیت کا قانون لاگو ہوتا ہے اور اس میں دونوں فریقین ہی ایک دوسرے کے عزیز ہوتے ہیں۔ پہلے تو پولیس خود ان معاملات کو دبا دیتی ہے اور اگر اتفاق سے مقدمہ عدالت تک پہنچ بھی جائے تو پھر؟ تو ہمارا پراسیکیوشن نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ملزم بھی اس کمزور پراسکیوشن کی وجہ سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

اس طرح کے مقدمے تو دنوں کا کھیل ہیں۔ مقدمہ شروع ہوتے ہی سردار کا مجرمانہ کردار سامنے آ جاتا ہے۔ میڈیا کا کردار بھی تو اس حوالے سے قابل تعریف نہیں کیونکہ وہ خاتون جسے رات کے اندھیرے میں قتل کیا جاتا ہے اس کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹر سے لے کر خبر پڑھنے والا اینکر بھی آخر تک ''کاری قرار دے کر قتل کی گئی خاتون'' کہہ کر سماج کی ہمدردیاں پیدا ہونے سے پہلے ہی چھین لیتا ہے۔

پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کوششیں کتنی تیز ہیں وہ ہم سب جانتے ہیں، کچھ آوازیں ضرور ہیں لیکن ان کو دبانے کی کوشش اس سے زیادہ رفتار میں کی جاری ہے۔ اب تو خواتین کی سیاست بھی دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔

ایک زمانے میں سندھ میں سندھیانی تحریک کے نام سے ایک تنظیم کا کام دیکھنے کو ملتا تھا اور دوسری جماعتوں کی بھی خواتین ونگز ہوا کرتی تھیں لیکن اب تو سب کی سب خاموش نظر آتی ہیں۔ اس لیے اب امیدیں پولیس اور انتظامیہ سے وابستہ ہیں، اور ہمارے کچھ دوست تو سندھ کے نئے آئی جی سے چارلس نیپیئر جتنی امیدیں وابستہ کر کے بیٹھے ہیں کہ جس طرح اس زمانے میں غیرت کے نام پر قتل کا باب بند ہوگیا تھا وہ دور پھر لوٹ آئے گا۔

انسانی حقوق کمیشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں غیرت کے نام پر 1354 لوگوں کا قتل ہوا جن میں 1096 خواتین، 88 مرد اور 170 بچے شامل تھے۔ انسانی حقوق کی ویب سائیٹ پر موجود 2009 سے جاری ان رپورٹس کی تمام تفیصلات میں جائیں تو سال 2011 کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک سال میں 943 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ان میں سے 93 مقتولین کم عمر تھیں۔ 2012 کی رپورٹ میں 913 خواتین کے قتل ہونے کا ذکر ہے ان میں سے 99 کمسن بچیاں ہیں۔ ان تمام خواتین میں 191 وہ ہیں جنہوں نے اپنی پسند کی شادی کی تھی۔ 2013 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال میں 869 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ اس میں کارو کاری کا حصہ 350 تھا۔

موجودہ صورتحال بھی کوئی آئیڈیل نہیں اور نہ ہی سب کچھ اتنا جلدی تبدیل ہونے کی امید ہے۔ جب تک خواتین کے حقوق کے خلاف ایک مخصوص طبقہ متحد ہو کر قانون ساز اداروں اور حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجانے یا ان کو گھر بھیجنے کی دھمکیاں دیتا رہے گا، جب تک خواتین کے حقوق پر سیاستدان سودے بازیاں کر کے حکومت گرنے کے خوف میں مبتلا ہو کر ان قوتوں کے آگے سرینڈر کرتے رہیں گے، اور جب تک وہ جاگیردار، بھوتار اور وڈیرے وزیر بنے رہیں گے جو اپنے اپنے علاقوں میں خود کارو کاری کے فتوے جاری کرتے ہیں، تب تک اس ملک کی خانزادیوں اور شہزادیوں کی خیر نہیں۔

Read Comments