پاکستان

سابق ایم این اے کو 8 سال بعد پولیس کاجواب موصول

اے این پی کی بشریٰ گوہرکی جانب سے دھمکی آویز خط موصول ہونے پردرج کروائی گئی درخواست کاجواب وفاقی پولیس نے8 سال بعد دیا۔

اسلام آباد: سابق رکن قومی اسمبلی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی سینئر رہنما بشریٰ گوہر کو انتہا پسندوں کی جانب سے دھمکی آمیز خط موصول ہونے پر درج کروائی گئی شکایت کا جواب بالآخر 8 سال بعد وفاقی پولیس کی جانب سے موصول ہوگیا.

اے این پی کی سینئرنائب صدر بشریٰ گوہر نے 2008 میں سیکریٹریٹ پولیس کے پاس ایک شکایت درج کروائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے دھمکی آمیز خط پارلیمنٹ لاجز میں اُن کی رہائش گاہ پر بھیجا گیا ہے۔

وہ بذات خود اُس وقت کے سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ کے سامنے پیش ہوئیں اور انہیں اس خط کے بارے میں آگاہ کیا، جس کے کچھ ہی دیر بعد پولیس نے ان کے گھر آکر شکایت درج کرلی ۔

اُن کا کہنا تھا، 'مجھے اپنی دائر کی گئی درخواست پر 24 مارچ 2016 تک کوئی معلومات موصول نہیں ہوئیں، اس کے بعد مجھے پولیس کے ایک عہدیدار کی جانب سے ملاقات کے لیے بلایا گیا۔'

سیکریٹریٹ پولیس کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو 24 مارچ 2016 کو لکھے گئے اپنے خط میں بشریٰ گوہر نے پولیس کو اپنی شکایت کی یاد دہانی کروائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ انھوں نے دھمکی آمیز خط کی کاپنی بھی پولیس کو فراہم کی تھی.

بشریٰ گوہر نے اس شبہہ کا بھی اظہار کیا کہ اُن کی درخواست کے ساتھ منسلک کی جانے والی دھمکی آمیز خط کی کاپی پولیس سے کہیں گم ہوگئی ہے۔

انہوں نے وفاقی پولیس کی اس کارکردگی پر حیرانگی کا اظہار کیا۔

اپنے خط میں ان کا کہنا تھا کہ 'اسلام آباد پولیس اگر ارکان اسمبلی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتی ہے، تو ایک عام آدمی کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا۔'

جب ایڈیشنل ایس ایچ او محمد یاسین سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ تحقیقات کا آغاز 8 سال پہلے کیا جاچکا تھا، لیکن انہوں نے ایک ماہ قبل ہی چارج سنبھالا ہے اور سابق ایم این اے سے رابطہ کرکے دھمکی آمیز خط کے متعلق مزید معلومات طلب کیں۔

اُن کا کہنا تھا، 'یہ تاثر غلط ہے کہ تحقیقات روک کر دوبارہ شروع کی گئی ہیں۔ نیا تحقیقاتی افسر ہونے کے ناطے مجھے مدعی کے ساتھ رابطہ کرنے کی ضرورت تھی تاکہ کیس کو حل کیا جا سکے۔'

یہ خبر 11 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔