Dawn News Television

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017 05:46pm

حیدرآباد: ادبی منظرنامے میں رنگ بھرتا میلہ

کسی بھی قوم کے ادیب اس قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اگر روس یا فرانس کی انقلابی تحریکوں کو دیکھا جائے تو اس میں ہمیں ایک چیز بالکل واضح نظر آتی ہے کہ اس زمانے کے ادیب ادب کو ایک محاذ کے طور پر استعمال کرتے آ رہے تھے۔

فرانس کے وکٹر ہیوگو اور روس کے میکسم گورکی ایسے نام ہیں جن کا کردار ادب کے حوالے سے بہت ہی اعلیٰ رہا ہے۔ ادب ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے تلخ سے تلخ بات بھی اس خوبصورت انداز سے کہی جا سکتی ہے کہ ایک جانب تو لکھاری اپنے دل کی بات کہہ جاتا ہے تو دوسری جانب پڑھنے والا اس پیغام کو بھی سمجھ جاتا ہے جو ادیب اس تک پنہچانا چاہتا ہے۔

چند روز قبل حیدرآباد کی تاریخ میں پہلی بار حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ یہ فیسٹیول 15 اپریل سے 17 اپریل تک حیدرآباد کلب میں جاری رہا، جس میں پورے سندھ سے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔ کراچی سے کشمور تک کے تمام ادب دوست لوگ اس فیسٹیول میں شریک ہوئے، جنہوں نے اس ادبی میلے کو بہت ہی سراہا اور مستقبل میں بھی ایسے فیسٹیول کروانے پر زور دیا۔

حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول کا افتتاح سندھ کے نامور ماہر تعلیم، افسانہ نگار، ناول نگار اور کالم نگار جناب امر جلیل نے کیا، جن کے آتے ہی فیسٹیول کی رونقیں دوبالا ہوگئیں۔ وہ لمحہ نہایت جذباتی تھا جب امر جلیل نے سندھی ادب کی نامور ناول و افسانہ نگار محترمہ ماہتاب محبوب کو لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ دیا۔ اس وقت نہ صرف ان دونوں کی آنکھیں نم ہوگئیں، بلکہ ہال میں بیٹھے ہوئے حاضرین بھی آبدیدہ ہوگئے۔

فیسٹیول کی ایک خاص اور بہتر بات یہ تھی کہ اس میں خواتین اور نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی۔ ان کے تعداد کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ میلہ ان کے لیے ہی لگایا گیا ہے۔ ادب سے وابستہ خواتین کی کافی ہمت افزائی کی گئی۔ جنہوں نے نہ صرف مختلف سیشن میں حصہ لیا بلکہ اپنے اپنے شعبوں میں کیے جانے والے کاموں کے بارے میں بھی اپنے تجربات پیش کیے۔

حال ہی میں سندھ کے معروف ادیب آغا سلیم کا انتقال ہوا ہے۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں ان کے لیے خاص تعزیتی ریفرنس رکھا گیا تھا۔ یہ سہرا فیسٹیول کے منتظمین کے سر ہے کہ اس موقعے پر انہوں نے آغا سلیم جیسے عظیم لکھاری کو یاد کیا اور ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔

سندھی میں لکھے جانے والے ادب میں گو کہ بہت سے سینیئر ادیب ہیں، مگر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اپنے قلم کی سیاہی سندھی ادب لکھنے میں صرف کر رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جو سینیئر ادیب ہیں، وہ اپنے آس پاس کسی بھی نوجوان ادیب کو پھٹکنے نہیں دیتے۔ آج بھی ہر ادبی پروگرام میں وہ کرسیوں سے ایسے چپکے ہیں کہ اترنے کا نام ہی نہیں لیتے۔

اس فیسٹیول میں مثبت بات یہ تھی کہ نوجوان ادیبوں کو بھی اپنی رائے لوگوں تک پہنچانے کا موقع ملا۔ انہیں اس فیسٹیول میں نظرانداز نہیں کیا گیا، بلکہ وہ اسی اسٹیج پر بیٹھے جہاں سینیئر ادیب بیٹھے ہوئے تھے۔ اس لیے سندھی ادبی 'اسٹیبلشمنٹ' کے لیے یہ ایک دھچکا ہے۔

سندھ میں کافی ایسے اچھے شاعر، نثر نویس اور افسانہ نگار موجود ہیں جنہیں کبھی بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع نہیں مل سکا، یہ پہلی بار ہوا ہے کہ اس فیسٹیول میں نہ صرف انہیں سنا گیا، بلکہ ان کو یہ بھرپور موقع فراہم کیا گیا کہ وہ جو ادب میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے بارے میں وہ ان ادیبوں کو بھی آگاہ کر سکیں جو انہیں ہمیشہ نظرانداز کرتے آئے ہیں۔

مگر جہاں فیسٹیول کے چند مثبت پہلو سامنے آئے ہیں وہاں کچھ ایسی چیزیں بھی سامنے آئی ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہیئں تھیں۔

شعراء کی سخن ناشناسی

سندھی ادب میں آج بھی سندھی شاعری کافی جاندار ہے۔ حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں ایک بہت بڑا مشاعرہ بھی رکھا گیا تھا، جس میں نوجوان و بزرگ شعراء نے بھرپور شرکت کی اور خوب داد وصول کی۔ یہ ایک نہایت مثبت پہلو تھا کہ مشاعرے کی روایت کو برقرار رکھا گیا، کیونکہ مشاعرے کے بغیر شاعری کی روایت قائم نہیں رہ سکتی۔

مگر فیسٹیول میں جس طرح شاعری کی اضافی نشتیں رکھی گئی تھیں، اس سے یہ تاثر ملا کہ جیسے سندھی ادب میں کسی اور صنف میں لکھا ہی نہیں جا رہا۔

پہلے سیشن میں تھر کے جن تین شعراء کو مدعو کیا گیا تھا، انہیں نہ تو شاعری کے حوالے سے اتنی معلومات تھیں، اور نہ ہی وہ حاضرین کے سوالات کے بہتر جوابات دے سکے۔ ان کا مطالعہ بہت ہی محدود تھا۔ تاثر یہ مل رہا تھا کہ انہوں نے صرف اپنی ہی لکھی ہوئی نظمیں اور غزلیں پڑھی ہیں، لہٰذا ان کی باتیں بوریت کا شکار کر رہی تھیں۔

'لطیف شناسی' کے سیشن میں بھی یہی ہوا۔ شاھ عبداللطیف بھٹائی کے ذکر کے بغیر سندھی ادب ادھورا ہے، لہٰذا فیسٹیول میں ایک سیشن ان کے حوالے سے بھی منعقد کیا گیا، مگر اس میں مدعو لوگوں میں ایسے بھی تھے جنہیں شاہ سائیں کے اشعار تو کافی یاد تھے، مگر انہیں 'لطیف شناس' نہیں کہا جا سکتا۔

لہٰذا جب ان سے سوالات کیے گئے تو وہ حاضرین کو مطمئن کرنے سے قاصر رہے۔ اس سے بہتر یہی تھا کہ ان سے صرف شاعری سنی جاتی اور شاعری پر بات کرنے کے لیے کسی سخن شناس کو بولنے کا موقع فراہم کیا جاتا، کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر اچھا شاعر شاعری پر اچھا بول بھی سکے، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ شاعری پر اچھا بولنے والا شاعری بھی کرسکے۔

مزاحمتی ادب میں غیر متعلقہ مقررین

مزاحمتی ادب کے سیشن میں جن لوگوں کو بولنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک سابق بیوروکریٹ بھی شامل تھے۔ اس سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک بیوروکریٹ نے مزاحمتی ادب کے حوالے سے کیا گفتگو کی ہوگی۔

اس سیشن میں کسی بھی مقرر نے یہ تک نہیں بتایا کہ سندھی میں تخلیق ہونے والے مزاحمتی ادب میں کیا کیا شامل ہے۔ ون یونٹ کے خلاف سیاسی تحریک کا تو ذکر ہوا مگر کسی نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ امر جلیل نے کیسے مزاحمتی افسانے لکھے، یا مانک کے افسانے کس مزاحمت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ رسول بخش پلیجو نے اس دور میں کس طرح ادب کو مزاحمتی سانچے میں ڈھالا، اور شاعری کس طرح سندھ میں سیاسی مزاحمتی دور میں اپنا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

ان کی باتیں صرف ون یونٹ تک ہی محدود رہیں، جسے قائم ہوئے اور ختم ہوئے 5 دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ کیا اس دوران سندھی ادب میں اور کوئی مزاحمتی تخلیق نہیں ہوئی؟ کیا تحریکِ بحالیء جمہوریت (ایم آر ڈی) میں سندھ کا کوئی حصہ نہیں تھا؟ کیا عدلیہ بحالی کی تحریک میں اور جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف سندھ میں کچھ نہیں لکھا گیا؟

ماڈریٹر یا اینکر پرسن؟

فیسٹیول میں جن لوگوں کو ماڈریٹر کے طور پر رکھا گیا تھا، انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سہولت کار نہیں بلکہ کسی ٹی وی پروگرام کے اینکر پرسن ہیں، اس لیے مہمانوں کو کھل کر بات کرنے کا موقع کم کم مل رہا تھا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ماڈریٹر صرف تعارف کرواتے اور موضوع کو مقررین پر چھوڑ دیتے، مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ ان کے سوال کرنے کا انداز بھی رائے دینے جیسا تھا، اور جو ادیب ایک سیشن میں مہمان تھا، وہی دوسرے میں ماڈریٹر بھی بنا ہوا تھا۔

کسی بھی سیشن کے لیے ماڈریٹر کا انتخاب کرتے وقت منتظمین کو اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ ماڈریٹر کو اس سیشن کے حوالے سے بنیادی معلومات ضرور ہوں اور اس کی اس موضوع میں ذاتی دلچسپی ضرور ہو، ورنہ گفتگو کا رخ موضوع سے ہٹ کر غلط سمت میں چلا جاتا ہے، جس سے نہ صرف سیکھنے کے قیمتی لمحات ضائع ہوتے ہیں، بلکہ بدمزگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔

جب امر جلیل ہال میں داخل ہوئے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ان کو حاضرین سے بات چیت کرنی تھی، مگر اس سیشن میں بھی ماڈریٹر کو شامل کر کے ان کی باتوں کے تسلسل کو متاثر کیا گیا۔ ان سے ادب کے بجائے متنازع سیاسی سوالات کیے گئے، جن کا کھرا جواب کئی لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ نتیجتاً امر جلیل جیسی بلند قامت شخصیت کو بلانے اور ان سے گفتگو کرنے کا بنیادی مقصد فوت ہوگیا۔

افسانے اور ناول کا مشترکہ سیشن

افسانہ اور ناول ادب کی دو الگ الگ صنفیں ہیں مگر ان دو صنفوں کو ایک ہی سیشن میں شامل کیا گیا تھا۔

سندھی ادب میں آج بھی بہترین افسانہ لکھا جا رہا ہے اور پچھلے دو برسوں سے سندھی میں ناول نگاری ایک بار پھر سے اپنی جڑیں پکڑنے لگی ہے۔ نئے ناول مارکیٹ میں مسلسل آ رہے ہیں، مگر اس پر ایک بھی الگ سے سیشن نہیں تھا۔ اس سے یہ تاثر بھی مل رہا تھا کہ ادیب صرف شاعر کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ بھی چاہیے تھا کہ افسانہ نگاروں سے چند بہترین افسانے بھی پڑھائے جاتے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔

بڑے نام فیسٹیول سے غائب

سندھی ادب کے کئی بڑے نام اس فیسٹیول میں دکھائی نہیں دیے۔ حالانکہ سندھی ادب کے لیے ان کی بیش بہا خدمات ہیں۔ علی بابا، عبدالقادر جونیجو، رحمت اللہ مانیوٹھی، اور دیگر کئی نام ایسے ہیں جن کی کمی فیسٹیول میں شدت سے محسوس کی گئی، کیونکہ اگر انہیں مدعو کیا جاتا تو کافی بہتر چیزیں سننے کو ملتیں۔ اب اس میں فیسٹیول انتظامیہ کی کوتاہی تھی یا ان کی مصروفیات، اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔

بہرحال تمام خامیوں کے باوجود حیدرآباد میں ادبی فیسٹیول کی ابتدا ایک اچھا اقدام ہے۔ امید ہے کہ فیسٹیول انتظامیہ اس مثبت روایت کو جاری رکھتے ہوئے اگلے سال یہ میلہ دوبارہ منعقد کرے گی۔ مگر ایسا کرتے ہوئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ فیسٹیول کی منصوبہ بندی نہایت عرق ریزی کے ساتھ کی جائے، تاکہ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے معیار میں زوال آنے کے بجائے کمال آتا جائے۔

حیدرآباد کا ادبی منظرنامہ ایک عرصہ ہوا پھیکا پڑ چکا ہے، اس میں رنگ بھرنے کے لیے اس طرح کی سرگرمیوں کی اشد ضرورت ہے، جس سے ہم نوجوان نسل کو اپنے ادب سے روشناس کروا سکتے ہیں، کیونکہ یہ ادب ہی ہے جو ایک صحتمند اور باشعور معاشرے کی تخلیق میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

Read Comments