دنیا

مطیع الرحمٰن کی پھانسی، بنگلہ دیش میں جھڑپیں

ڈھاکا اورمطیع الرحمٰن کےآبائی علاقےمیں پولیس اور جے آئی کارکنوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد سیکڑوں افراد گرفتارکرلیے گئے۔

ڈھاکا: بنگلہ دیش کی سب سے بڑی مذہبی جماعت، جماعت اسلامی (جے آئی) کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی پر گذشتہ روز عمل درآمد کروائے جانے کے بعد ملک بھر میں حالات کشیدہ صورت اختیار کرگئے اور کئی علاقوں میں فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

خیال رہے کہ جے آئی کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی کو بنگلہ دیشن میں وزیراعظم حسینہ واجد کی انتظامیہ کی جانب سے قائم کردہ ٹرائل کورٹ نے 1977 کی جنگ میں قتل، ریپ اور اقدام قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا سنائی تھی، جس پر گذشتہ روز عمل درآمد کروادیا گیا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس کا کہنا تھا کہ انھوں نے ملک کے شمال مغربی شہر راجشانی میں مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر ربڑ کی گولیاں فائر کی تھی۔

راجشانی کے پولیس انسپکٹر سلیم بادشاہ کا کہنا تھا کہ 'مطیع الرحمٰن کی پھانسی پر جماعت کے 500 کارکن احتجاج کررہے تھے جس میں سے 20 کو گرفتار کرلیا گیا ہے'۔

مزید پڑھیں: مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی:پاکستان کی مذمت

بنگلہ دیشی اہم بندرگاہ چٹا گانگ کے ڈپٹی پولیس چیف مسود الحسن نے بتایا کہ جماعت اسلامی اور حکمران جماعت کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں، جہاں 2500 افراد مطیع الرحمیں کی غائبانہ نماز جنازہ میں شریک تھے۔

یاد رہے کہ جے آئی امیر کی پھانسی سے قبل دارالحکومت ڈھاکا میں سیکیورٹی انتظامات انتہائی سخت کیے گئے تھے جو تاحال جاری ہے اور پولیس شہر بھر میں پیٹرولنگ کررہی ہے تاکہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے نمٹا جاسکے۔

اس کے علاوہ مطیع الرحمٰن نظامی کے آبائی علاقے پابنا کی سیکیورٹی بھی انتہائی سخت ہے جہاں ان کی میت کو سخت حفاظتی انتظامات میں منتقل کیا گیا تاکہ ان کی دفین ان کے آبادئی قبرستان میں کی جاسکے۔

پابنا کے مقامی پولیس انسپکٹر احسان الحق کا کہنا تھا کہ 'رات گئے پابنا میں سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں جماعت اسلامی کے 16 کارکن گرفتار کیے گئے'۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی

واضح رہے کہ جے آئی نے مطیع الرحمٰن نظامی کی پھانسی کے خلاف ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے، جبکہ پھانسی پر ان کا مؤقف تھا کہ جے آئی امیر پر لگائے گئے الزامات غلط اور ان کا مقصد پارٹی کی قیادت کو ختم کرنا ہے۔

یاد رہے کہ 73 سالہ مطیع الرحمٰن نظامی اپوزیشن کے پانچویں اور سینئر ترین رہنما تھے جنھیں وزیراعظم حسینہ واجد کی انتظامیہ نے متنازعہ کرائم ٹریبونل کے تحت پھانسی دی ہے۔

اس سے قبل 2013 میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی کے بعد ملک میں بدترین کشیدگی ہوئی تھی، جس میں پولیس اور جے آئی کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 500 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

بنگلہ دیش میں حال ہی میں پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی میں وزیراعظم حسینہ واجد کی انتظامیہ نے جماعت اسلامی کے ہزاورں کارکنوں اور سیکٹروں رہنماؤں کو گرفتار کرکے قید کردیا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔