محمد علی کی وفات پر لیاری سوگوار
محمد علی کی وفات پر لیاری میں سوگ، قرآن خوانی
تحریر: جہانزیب حسین
جہانِ فانی سے کوچ کرجانے کے بعد بھی عظیم باکسر محمد علی کا ورثہ ہمارے پاس موجود ہے، محمد علی موت کے بعد بھی بیک وقت دو افقوں پر دنیا بھرمیں گمک پیدا کررہے ہیں، لیجنڈ علی کو پہلے باکسر اور پھر بطور سماجی و سیاسی شخصیت ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پاکستان میں بھی محمد علی صرف باکسنگ نہیں بلکہ کئی وجوہات کی بناء پر لیجنڈ کا درجہ رکھتے ہیں، لیاری میں تو لوگوں کی محمد علی سے محبت دیوانگی کی حد تک ہے۔
لیاری کراچی کا ایک علاقہ ہے جسے جرائم اور گینگ وار کے علاوہ یہاں کے نوجوانوں کی کھیلوں سے محبت کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔
یہاں ایک کھلے احاطے میں، باکسنگ سے قربت رکھنے والوں اور محمد علی کے مداحوں نے ان کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کی، محمد علی کے انتقال کے بعد انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے لیاری لیبر ویلفیئر سینٹر باکسنگ کلب نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور باکسرز سے درخواست کی کہ وہ اس دوران پریکٹس کیلئے نہ آئیں۔
دنیا بھر میں جو کوئی بھی باکسنگ سے محبت کرتا ہے وہ محمد علی کو بھی چاہتا ہے، لیکن وہ مداح جنہیں ذاتی طور پر اپنے ہیرو باکسر محمد علی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہو ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔
محمد علی کی یاد میں اکھٹے ہونے والے لوگوں میں ایسے بھی چند لوگ موجود تھے جو محمد علی سے ملاقات کا اعزاز رکھتے ہیں۔ محمد علی کی موت اہلیان لیاری پر سب سے بھاری گزری، یوں لگتا ہے جیسے ان کا کوئی اپنا چل بسا ہو، محمد علی کی موت پر ان لوگوں کو اتنا ہی دکھ ہے جتنا کہ وہ اپنے ہیرو کیلئے بطور کھلاڑی اور بطور انسان احترام رکھتے ہیں۔
سندھ باکسنگ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اصغر بلوچ نے محمد علی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہوسکے گا، ہم سب اداس اور صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
اس وقت لیاری میں ایک درجن سے زائد باکسنگ کلبز ہیں، ان میں سب سے پرانا لیاری لیبر ویلفیئر سینٹر باکسنگ کلب ہے۔ یہ کلب قیام پاکستان سے بھی سات برس قبل 1940 میں قائم کیا گیا تھا۔
لیکن اس کلب کا سنگ بنیاد رکھنے والے بابائے باکسنگ محمد ستو اس سے کہیں پہلے لیاری میں باکسنگ کلچر متعارف کراچکے تھے اور وہ 1918 سے لیاری میں اس کھیل کے فروغ کیلئے کوشاں تھے۔
محمد علی خود 1989 میں پاکستان آئے، وہ اسلام آباد میں ہونے والے چوتھے ایشین گیمز کے مہمان خصوصی تھے۔ لیاری لیبر ویلفیئر سینٹر باکسنگ کلب کے عہداداروں نے بھی اس موقع پر محمد علی سے ملاقات کی تھی اور محمد علی ان کی باکسنگ سے دلچسپی اور محبت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے تھے۔
محمد علی نے اپنے اسی دورے میں لیاری کا دورہ کیا اور مذکورہ کلب بھی گئے۔
اس کلب نے پاکستان میں باکسنگ کے کئی نامور کھلاڑی پیدا کیے، لہٰذا دنیائے باکسنگ کے بے تاج بادشاہ کو خراج عقیدت پیش کرنے اور قرآن خوانی کیلئے بھی اسی کلب کا انتخاب کیا گیا۔
محمد علی، عظیم باکسر
سندھ باکسنگ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری اصغر بلوچ نے محمد علی کی باکسنگ کیلئے خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کے باکسنگ گُر آج بھی نوجوانوں اور ہمارے لیے گائیڈ لائنز کا درجہ رکھتی ہیں۔
اصغر نے مزید کہا کہ محمد علی وہ ہیں جنہوں نے باکسنگ میں بھی آرٹ کو متعارف کرایا اور یہ آرٹ فٹ ورک ہے۔
اصغر نے کہا کہ فُٹ ورک ایک ایسا فن ہے جو ہر کھیل میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ محمد علی نے باکسنگ میں 'ایتھلیٹک ازم' یعنی جسم کو اچھی حالت میں رکھنے کا فن سکھایا اور جب تک اس دنیا میں باکسنگ کا نام رہے گا یہ فن کھیل کا حصہ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ لیاری کے نوجوان باکسرز بھی محمد علی کے فائٹنگ اسٹائل کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں اپنی محنت سے اختراع کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اور باکسر عبدالرؤف قریشی بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ فائٹ میں محمد علی کی نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمد علی کا فٹ ورک کمال کا تھا۔
عبدالرؤف 1967 میں پاکستان کے جونیئر باکسنگ چیمپئن بنے، 1970 میں قومی چیمپئن بنے اور ایک برس بعد انہوں نے ایشین چیمپئن شپ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
1964 میں محمد علی کی سونی لسٹن کے ساتھ مشہور فائٹ کو دیکھنے کے بعد عبدالرؤف نے جرمنی سے خصوصی جوتے منگوائے تاکہ وہ بھی رنگ میں محمد علی کی طرح پھرتی سے اپنے حریفوں پر مکے برسا سکیں۔ اب بطور کوچ وہ اپنے شاگردوں کو بھی یہی سکھاتے ہیں۔
1972 میونخ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے ملنگ بلوچ نے محمد علی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ محمد علی نے باکسنگ میں لچک اور پھرتی متعارف کرائی اور کھیل کو مزید بلندیوں پر لے گئے۔ ملنگ بلوچ کا تعلق بھی لیاری لیبر ویلفیئر سینٹر باکسنگ کلب سے ہے۔
ملنگ بلوچ نے باکسنگ کی ترقی میں محمد علی کے انقلابی کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے باکسنگ ناک آئوٹس پر مشتمل ہوتی تھی، لیکن محمد علی نے اس میں کئی تکنیکی پہلو بھی شامل کیے۔ ملنگ بلوچ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ محمد علی کے قدموں کے استعمال کا فن اور لڑنے کا طریقہ لیاری کے باکسرز میں بہت مشہور ہے۔
زندگی کی 60 سے زائد بہاریں دیکھ چکنے والے ملنگ بلوچ نے وہ وقت یاد کیا جب اسلام آباد میں ایشین گیمز کے موقع پراور پھر لیاری میں ان کی محمد علی سے ملاقات ہوئی تھی۔
ملنگ بلوچ نے بتایا کہ اسلام آباد میں محمد علی نے ہم سے پوچھا کہ ہمارا تعلق کہاں سے ہے، ہم نے انہیں بتایا کہ ہم لیاری سے آئے ہیں، ہم نے انہیں لیاری آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی۔ انہوں نے لیاری کے باکسرز سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ ان کی تکنیک بھی امریکا میں موجود باکسرز کی طرح ہی ہیں، وہ لیاری کی گلیوں میں لوگوں سے ملتے رہے، ہم سب ان کے ساتھ تھے، لیاری بھر میں جشن کا سماں تھا۔
عبدالرؤف نے بھی محمد علی سے اپنی ملاقات کو یاد کرتے ہوئے اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ محمد علی نے لیاری کے لوگوں کے ساتھ تعاون اور یکجہتی کا اظہار کیا، یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ وہ بیمار پڑگئے، ورنہ وہ ہمارے لیے بہت کچھ کرتے، انہوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹرینرز کو لیاری بھیجیں گے۔
محمد علی، غیر معمولی سماجی شخصیت
محمد علی کے ورثے میں ان کے متاثر کن کردار کا بھی بڑا حصہ ہے۔ بطور باکسر ان کی شہرت اپنی جگہ، لیکن ایک سماجی شخصیت کے طور پر ان کا کردار بھی کسی طرح غیر اہم نہیں۔
اصغر بلوچ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ محمد علی ایک انسان کا نہیں بلکہ ایک خیال کا نام ہے، ایک سوچ اور ایک تحریک کا نام ہے، لیاری میں ہر کوئی اس حقیقت سے آشنا ہے جہاں کے لوگوں کا ورثہ بھی محمد علی کے افریقی ورثے سے مشابہت رکھتا ہے اور یہاں کے لوگ بھی معاشرتی اعتبار سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اصغر، جن کے چہرے کے نقوش ایسے ہیں کہ اگر انہیں نیویارک کے علاقے ہارلم میں کھڑا کردیا جائے تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ یہ غیر ملکی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ سوچ رہے ہونگے کہ محمد علی سے ہماری محبت کی وجہ نسلی ہے، کیوں کہ ہم بھی کالے ہیں اور محمد علی بھی سیاہ فام تھے۔
انہوں نے کہا کہ نسلی مماثلت کا بھی کسی حد تک کردار ہوتا ہے، جب ویسٹ انڈین کرکٹ ٹیم نے 80 کی دہائی میں پاکستان کا دورہ کیا تھا تو سر ویون رچرڈز سمیت دیگر کھلاڑی روز لیاری آتے تھے، اور یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ ویسٹ انڈیز کے لوگ یہاں کیسے موجود ہیں۔
نسل کے علاوہ طبقاتی پس منظر بھی ایک اہم وجہ ہے۔
لیاری لیبر ویلفیئر سینٹر باکسنگ کلب کے بانی ستو استاد کراچی پورٹ میں ملازم تھے، لیاری کےباکسرز اور دیگر رہائشی بھی مزدور پیشہ ہیں، یہ لوگ محمد علی کو اپنے لیے ایک مشعل راہ سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کا تعلق بھی معاشرے کے نظر انداز طبقے سے تھا تاہم تمام تر رکاوٹوں کےباوجود وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔
شہرت حاصل کرنے کے خواب کے علاوہ محمد علی کے باکنسگ سے تعلق اور ان کی اہمیت بھی باکسرز کی روز مرہ زندگی کا اہم جز بن چکا ہے۔
اصغر بلوچ کا کہنا ہے کہ باکسنگ ایک صحت مند لائف اسٹائل فراہم کرتا ہے اور خاص طور پر ایک ایسے علاقے میں جہاں نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی لت موجود ہو وہاں کھیلوں کی سرگرمیاں زندگی گزارنے کا ایک صحت مند ذریعہ فراہم کرتی ہیں، اگر آپ محمد علی کی طرح بننا چاہتے ہیں تو منشیات سے دور رہیں، صحت سب سے ضروری ہے، تعلیم سے بھی زیادہ ، اور ہم یہاں ایک صحت مند معاشرے کے قیام کیلئے کوشاں ہیں۔
محمد علی کے قبول اسلام نے بھی لیاری کے لوگوں میں تغیراتی اثرات مرتب کیے ہیں، جیسا کہ دنیا بھر کے لوگ اس سے متاثر ہوئے تھے۔ محمد علی کے مسلمان ہونے سے لیاری کےلوگوں کو ان سے محبت کرنے کی ایک اور وجہ ملی۔
عبدالرؤف کہتے ہیں کہ اب بہت سے لوگ محمد علی کیلئے دعا کرتے ہیں، یہ ہمارے کیلئے اعزاز کی بات ہے کہ محمد علی مسلمان تھے، وہ پہلے ہی ایک عظیم باکسر تھے اور ہم ان سے متاثر تھے تاہم جب وہ ہمارے مذہب میں داخل ہوئے تو ہمارا ان سے بھائی کا رشتہ قائم ہوگیا۔
ویڈیو: کامران نفیس اور عامر بیگ | ترجمہ: خالد حسین