اگر کوئی پوچھے کہ کیا کاغذ کا چھوٹا سا پرزہ ملکی تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے تو اس کا جواب شاید نا میں ہو لیکن یہ کا غذ کا چھوٹا سا پرزہ اگر کسی سرکاری عہدے دار کے ہاتھ سے گزر کر نکلا ہو تو وہ یقیناً ملکی تاریخ پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔ 9 جون 1958 بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ایوان صدر کی اسٹیشنری سے پھٹے سرکاری کاغذ کے ایک چھوٹے پرزے نے پاکستان کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔
یہ بات بھی ماننی پڑتی ہے کہ بظاہر معمول کے نظر آنے والے دن بعض اوقات بڑے ہی غیر معمولی بن جاتے ہیں اور قوموں کی تاریخ کا منہ موڑ دیتے ہیں۔ ٹھیک 58 برس پہلے 1958 کا 9 جون بھی ایک ایسا ہی منفرد دن تھا جس نے پاکستان کی تاریخ پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے۔
9 جون 1958 کی اس گرم دوپہر دھوپ میں شدت کچھ زیادہ تھی۔ مشہور بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب اپنے دفتر میں بیٹھے کام کر رہے تھے۔ اس وقت کے صدر پاکستان، صدر اسکندر مرزا حسب معمول پورے ایک بجے اپنے کمرے سے اٹھ کر قدرت اللہ شہاب کے دفتر کی کھڑکی کے پاس آئے اور پوچھا۔ ''کوئی ضروری کام باقی تو نہیں؟" شہاب نے نفی میں جواب دیا تو اسکندر مرزا خدا حافظ کہہ کر ایوان صدر میں اپنے رہائشی حصے کی طرف روانہ ہوگئے۔ تھوڑی دور چل کر وہ اچانک رکے اور مڑ کر تیز تیز قدم اٹھاتے واپس قدرت اللہ شہاب کے کمرے میں آ گئے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ بولے۔ "میں ایک ضروری بات تو بھول ہی گیا"۔ یہ کہہ کر انہوں نے قدرت اللہ شہاب کی میز سے پریذیڈنٹ ہاؤس کی اسٹیشنری کا ایک ورق اٹھایا اور وہیں کھڑے کھڑے وزیراعظم فیروز خان نون کے نام ایک دوسطری نوٹ لکھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کے احکامات فوری طور پر جاری کردیے جائیں۔
اس پر انہوں نے most immediate کا لیبل اپنے ہاتھوں سے پن کیا اور قدرت اللہ شہاب کو حکم دیا کہ وہ ابھی خود جا کر یہ نوٹ پرائم منسٹر کو دیں اور ان کے عملے کے حوالے نہ کریں۔ یہ مختصر سا پروانہ بڑی عجلت اور کسی قدر بے پروائی کے عالم میں لکھا گیا تھا لیکن کاغذ کے اس چھوٹے سے پرزے نے ملک کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔