میرے خیال میں ہم سب اس بات پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ جب بھی ماہ رمضان موسم گرما میں آتا ہے تو روزے سخت اور دشوار ہوجاتے ہیں۔ حتٰٰی کہ سخت گرمی میں تھوڑی چہل قدمی سے بھی ہمارے جسم سے نمکیات کا کافی مقدار میں اخراج ہو جاتا ہے چنانچہ ہم جتنا جلدی ہو سکے اتنا جلدی گھر پہنچ کر ایئر کنڈیشنر سے آراستہ اپنے بیڈ رومز میں خود کو محصور کر دیتے ہیں۔
مگر جناب میرا یہ مضمون رمضان میں ورزش کے متعلق ہے۔
آپ سوچ رہے ہیں ہوں گے کہ میں یہ کیا احمقانہ بات کر رہی ہوں؟
کیا روزں کے دوران ہم کام کرتے ہیں، پڑھتے ہیں اور گھر بھی چلاتے ہیں، اتنا کافی نہیں؟ کیا ورزش جیسا اضافی بوجھ بھی لازمی ہے؟
پہلا کام
اس سے قبل کہ ہم رمضان میں ورزش کیوں اور کیسے کی جائے پر غور کریں، میں سب سے پہلے یہاں ہماری جسمانی حرکت یا موومنٹ کے بارے میں بات کروں گی جو کہ رمضان کے دوران کم ہو جاتی ہے۔
مومنٹ یا حرکت سے میری مراد چلنے، جھکنے، چڑھنے، دھکیلنے، اٹھانے جیسے عوامل سے ہے۔