جلال چانڈیو: ایک صدی پر راج کرنے والا فنکار
اپنے استاد سے موسیقی سیکھنے کے بعد انہوں نے یکتارہ اور کھرتل (کھڑ تال) لے کر جب میلوں کا رخ کیا تو کئی رکاوٹیں اور چیلنج ان کے سامنے تھے، اور کیوں نہ ہوتے، سندھ میں استاد گھرانوں اور گویوں کا بڑا نام تھا، سندھی راگ کے امام استاد منظور علی خان، استاد مٹھو کچھی، استاد جمن، استاد ابراہیم، پھر ان سب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد بھی موسیقی کے میدان میں تھے۔
اسی زمانے میں ڈھول فقیر، فقیر امیر بخش، یار علی فقیر اور فقیر عبدالغفور صوفیانہ رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور ان سب کے ہاتھوں میں بھی وہی یکتارے تھے۔ سندھ کے میلے اور محفلیں ان فنکاروں کے سوائے ادھوری تھیں۔
شادیوں میں قصے گو فنکار کارو مگنہار، خان محمد شیخ، قاسم اوٹھو اور کئی محفلوں کے مور چھائے ہوئے تھے۔
ریڈیو، تھیٹر اور کیسٹ کی دنیا میں میڈم نور جہاں، عنایت حسین بھٹی، عالم لوہار اور پھر عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان تمام بڑے گویوں، فنکاروں اور سریلی آوازوں میں اپنا نام پیدا کرنا آسان تو نہیں تھا۔
مگر انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور پھر تمام رکاوٹوں کو پار کر کے اپنے نام کا ایسا لوہا منوایا کہ آج بھی پورے ملک میں جلال چانڈیو کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے، اس فنکار نے عوام میں جتنی پذیرائی حاصل کی، مقبولیت کی اس معراج کو آج تک کوئی فنکار نہیں پہنچ پایا۔
وہ مویشیوں کے درمیان پلے بڑھے تھے، ہوش سنبھلتے ہی والد نے مویشیوں کی نگرانی اور نگہبانی کا کام ان کے سپرد کر دیا اور وہ جانوروں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں یا چڑے سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔
چڑے کی آواز کو لطیف سرکار نے بھی گایا ہے، وہ سوہنی کے ذریعے کہتے ہیں کہ
’’چڑے کی آواز سن کر مرے تن من میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے‘‘
چڑوں کی فطری موسیقی میں پلے بڑھے بچے کو راگ کا تھوڑا بہت فن کا پتہ تو ہونا ہی تھا لیکن کافی عرصے تک انہیں فنکارانہ حیثیت دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔
ان کے کانوں میں دوسری آواز ریڈیو سے نشر ہونے والے سریلے نغموں، گیتوں اور غزلوں کی پڑی۔ ان کے والد نے انہیں درزی بنانا چاہا تھا۔
درزی کی دکان پر اس کی پہلی نظر سلائی مشین، سوئی دھاگے یا قینچی پر تو شاید نہیں پڑی، لیکن سریلی آوازیں پیدا کرتا ریڈیو ان کے من کو بھا گیا اور درزی کا یہ شاگرد ریڈیو کے گیتوں اور نغموں میں ایسا گم ہوا کہ شکایت والد صاحب تک جا پہنچی۔
یہ تو سچ ہے کہ کچھ ناکامیاں بڑی کامیابی اور ناموری کا پیش خیمہ ہوتی ہیں، نوشہرو فیروز کے چھوٹے شھر پُھل کے قریبی گاؤں میں فیض محمد چانڈیو کے گھر جنم لینے والے بچے نے چرواہا یا درزی تو بننا ہی نہیں تھا، اس کے اندر عشق کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور وہ اس کے اظہار کے لیے تب تک بے چین رہا جب تک اس کی ملاقات استاد علی گل مہر سے نہیں ہوئی تھی۔ وہ موسیقی میں ان کا پہلا اور آخری استاد تھا، استاد نے انہیں گانا سکھایا اور پھر ایک ہاتھ میں یکتارا اور دوسرے میں کھرتل تھما دی۔
علی گل مہر نے ایسے شاگرد کو موسیقی کی تربیت دی تھی جس کے گھرانے میں کوئی فنکار نہیں تھا، دادا، والد نہ چچا نہ بھائی۔ بس ایک ماموں بخشن تھا جس کے لیے گاؤں اورآس پاس کے لوگ کہتے تھے کہ اس کی آواز اونچی ہوا کرتی تھی، جلال نے خود بھی وہ ماموں نہیں دیکھا تھا۔
اونچی آواز فن موسیقی میں پہلی سیڑھی کی مانند ہے۔ بڑے استاد تو اونچی آواز والے شاگردوں کو ہاتھوں ہاتھ لے لیتے تھے، اب تو ایکو ساؤنڈ نے فنکاروں کو اونچی آواز، سر، راگ، ریاض اور محنت سے بچا لیا ہے۔
استاد علی گل مہر ماتھیلو والے سے دھاگا بندھوانے کے بعد جلال چانڈیو نے میلوں ٹھیلوں کا رخ کیا، جہاں وہ یکتارا اور کھرتل اٹھائے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے۔ کبھی انہیں باری ملتی تو کبھی کہیں سے ایسے ہی مایوس ہو کر لوٹنا پڑتا۔ لیکن جب کبھی انہیں باری مل جاتی تو ایک کے بعد ایک فرمائشیں آنے لگتیں۔
وہ خود ہی اپنے انٹرویو میں کہتے تھے کہ ’’جہاں دوسرے فنکار ایک ایک کلام گاتے تھے وہاں میں دو تین گاتا تھا۔‘‘
اس دہائی میں ’’زلف دا کنڈل کھلے نا‘‘، ’’چن میرے مکھنا‘‘ اور عالم لوہار کی جگنی سے لے کر میڈیم نور جہاں کے جانجھر دی پاوان جھنکار، تیرے نال ملایاں اکھیاں، وی ایک تیرا پیار میں نو ملیا جیسے پنجابی اور اردو نغمے، گیت، گانوں اور دو گانوں کا رواج تھا۔
جلال نے شروع میں تو صوفیانہ کلام گائے لیکن جیسے جسیے ان کی ڈمانڈ بڑھتی گئی انہوں نے ایک ایک کر لتا منگیشکر، نورجہاں، زبیدہ خانم، محمد رفیع، عنایت بھٹی سمیت اس دور کے تمام مشہور فنکاروں کی دھنوں کو نقل کیا۔
جلال کی آخری نقل شاید لتا کا گایا ہوا گیت دیدی تیرا دیور دیوانہ ہے۔ وہ نقل عقل سے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے نقل کی ہوئی کسی دھن کو کبھی اپنے کھاتے میں نہیں ڈالا، وہ ہر گانے کے آخر میں اصلی گانے کا مکھڑا بھی گا کر یہ سمجھا دیتا تھا کہ میں کس گانے کی کٹ گا رہا ہوں۔
عوامی مقبولیت کا اور کیا پیمانہ ہو سکتا ہے کہ کسی فنکار کو ملک کی تمام شاہراہوں پر سنا جائے۔ سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے سے لے کر جی ٹی روڈ تک ٹرک، ٹرالر، بسوں اور ویگنوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں اور شاہراہوں کے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے لے کر دیہاتوں کے چھپرا ہوٹلوں اور پان کے کھوکھوں تک جلال ہی جلال چھایا رہتا تھا۔
لوگ جلال چانڈیو سے تاریخ لے کر شادی کرواتے تھے تاکہ اس محفل کو فنکار خود آکر چار چاند لگائے۔ جلال چانڈیو کی محفلوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا تھا اور لوگوں کو سنبھالنا مشکل بن جاتا تھا۔
جن کو دعوت نہیں ہوتی تھی وہ گھر سے کھانا کھا کر جلال چانڈیو کو سننے جاتے تھے۔ جلال سے لوگوں کی محبتوں کی لازوال کہانیاں ہیں، شادیوں میں دولہے کو تو نئے کرارے نوٹوں کے ہار تو پہنائے ہی جاتے تھے، لیکن شریک محفل دوسرا ہار جلال کے گلے میں ڈالتے تھے۔ کوئی اجرک، کوئی ٹوپی اور کوئی جھپی ڈال کر محبت کا اظہار کرتا تھا۔
ڈیرا غازی خان کے پینٹر اور ٹرک باڈی میکر ظہور احمد شاید پاکستان کے واحد پینٹر تھے جن کے پاس پورے ملک سے ٹرک ڈرائیور آتے تھے۔ اس پینٹر نے ٹرکوں کے پیچھے زیادہ تر یا تو جنرل ایوب خان اور ذوالفقار بھٹو کی تصاویر بنائی تھیں یا پھر جلال چانڈیو کی۔