پاکستان

پشاور جیل میں ہندوستانی قیدی پر حملے کی تصدیق

میرے مؤکل حامد نہال پر 2 ماہ میں ساتھی قیدیوں دو بار حملہ کیا، ہندوستانی قیدی کے وکیل کی پشاور ہائی کورٹ کو شکایت

پشاورہائی کورٹ کے ایک بینچ کو بتایا گیا ہے کہ پشاور سینٹرل جیل میں قید ہندوستانی قیدی حامد نہال پر گزشتہ دو ماہ کے دوران ساتھی قیدیوں پر دو بار حملہ کرکے زخمی کیا۔

جیل سپریٹنڈنٹ مسعود الرحمان نے بھی واقعے کی تصدیق کی مگر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ معمولی نوعیت کا واقعہ تھا اور اس کے واقعات جیل میں اکثر پیش آتے ہیں۔

انہوں نے جسٹس مسرت ہلانی اور جسٹس قلندر علی خان پر مشتمل بینچ کو یہ بھی بتایا کہ نہال انصاری جو اپنی تین سالہ قید کاٹ رہے رہے ہیں، کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا ہے۔

’انہوں نے بتایا کہ ’’انہیں (ہندوستانی قیدی کو) سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر دیگر قیدیوں کے ساتھ عام بیرکوں میں نہیں رکھا جاسکتا۔’’

قیدی کے وکیل قاضی محمد انور نے کہا کہ ان کے مؤکل کو ڈیتھ سیل میں ایک خطرناک مجرم کے ساتھ رکھا گیا جسے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جیل سپریٹنڈنٹ عدالت میں ضمانت پیش کریں کہ مستقبل میں ان کے مؤکل کے خلاف ایسے حملے نہیں ہوں گے۔ اس پر سپریڈنٹ کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے تحریری طور پر کوئی گارنٹی نہیں دے سکتے۔

انہوں نے شکایت کی کہ جیل میں حد سے زیادہ قیدی قید ہیں کیونکہ یہ جیل 350 قیدیوں کے لیے بنائی گئی تھی مگر اس وقت جیل میں 3 ہزار کے قریب قیدی ہیں۔

بینچ نے سپریٹنڈنٹ اور سماجی کارکن رخسانہ ناز، جو وہاں نہال انصاری کی والدہ فوزیہ انصاری کی نمائندگی کر رہی تھیں، کو ہدایت دی کہ دونوں ہندوستانی قیدی کے ساتھ بیٹھ کر جیل میں ان کی سکیورٹی کا پلان مرتب کریں۔

2 اگست پر عدالتی کارروائی کے دوران نہال انصاری کی درخواست پر بینچ نے جیل سپریڈنٹ کو عدالت طلب کیا گیا تھا۔

نہال انصاری کی جانب سے ایک اور درخواست بھی عدالت میں زیر سماعت ہے جس میں انہوں نے فوجی عدالت کی جانب سنائی گئی سزا سے پہلے حراست میں گزرا عرصہ بھی قید کی سزا میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی۔

انہیں 17 دسمبر 2015 کو فوجی عدالت کی جانب سے سزا سنائی گئی تھی۔

قاضی انور نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے مؤکل کو پہلے کال کوٹھڑی میں قید کیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے درخواست جمع کروائی تھی مگر اس پر اس لیے زور نہیں دیا گیا تھا کیونکہ جیل حکام کے بیان کے مطابق ایسا انہوں نے ہندوستانی قیدی کی سیکیورٹی کے لیے کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ سپریٹنڈنٹ نے درخواست گزار کو بہتر علاج کے لیے جیل ہسپتال منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا۔

وکیل نے یہ شکایت کی کہ ایک سینئر جیل اہلکار بھی ان کے مؤکل کو روزانہ کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔

اس پر سپریٹنڈنٹ نے عدالت کو بتایا کہ وہ پچھلے ماہ مذکورہ اہلکار کو برطرف کر چکے ہیں۔ انہوں نے اس کے ساتھ درخواست گزار کو اضافی خیال اور دودھ کے ساتھ بہترین غذا فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔

سپریٹنڈنٹ نے مزید بتایا کہ جیلوں میں اکثر معمولی لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں اور حد سے زیادہ بھرے قیدیوں کی جیل کا جائزہ لینا بہت مشکل عمل ہوتا ہے۔

جسٹس قلندرعلی خان نے ریمارکس دیے کہ جیل کے اندر امن و امان برقرار رکھنا سپریٹنڈنٹ کی ذمہ داری ہے۔ ’’یہ اضافی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ جیل انتظامیہ کی سب سے اہم ذمہ داری ہے۔’’

واضح رہے کہ نہال انصاری جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھتے تھے جو گم ہو گیا تھا جس کے بعد نومبر 2012 میں انہیں خفیہ ایجنسیز اور ضلع کوہاٹ کی مقامی پولیس کی جانب سے حراست میں لیا گیا تھا۔

بعد ازاں 13 جنوری کو نہال انصاری کی والدہ فوزیہ انصاری کی جانب سے ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کروائی گئی جس کے جواب میں ہائی کورٹ کو بتایا گیا تھا نہال انصاری افواج پاکستان کی حراست میں تھے اور ان پر فوجی عدالت کے تحت مقدمہ چل رہا تھا۔

فروری میں یہ اطلاع موصول ہوئی کہ نہال انصاری کو فوجی عدالت کی جانب سے سزائی سنائی گئی تھی اور انہیں پشاور سنٹرل جیل میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ قید کاٹ رہے تھے۔

یہ خبر 5 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شایع ہوئی۔