'بہتر ہوگا کہ آپ پاکستان چلے جائیں'
3 جون 1947 کو آل انڈیا ریڈیو نے تقسیم ہند کے لیے برٹش حکومت پلان یا ماؤنٹ بیٹن پلان پر قائد اعظم محمد علی جناح کے خطاب کو براہ راست نشر کیا تھا۔
ہم نے وہ تقریر سملہ میں سنی جہاں ہم اپنے والدین کے ہمراہ تھے، جہاں ہر سال موسم گرما میں مرکزی حکومت کے سینئر افسران دہلی سے وہاں چلے آتے تھے۔
ہم نے سملہ (موجودہ شملہ) میں موجود وائسرائے ہاؤس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹبیٹن سے ملاقات کے لیے آتے جاتے سیاسی رہنماؤں کو دیکھا۔ ان میں سے ہماری سب سے پسندیدہ یاد، نفیس لباس میں ملبوس اور سر پر ٹوپی سجائے ہوئے آئے قائد اعظم محمد علی جناح کی آمد تھی، وہ چار لوگوں کی مدد سے کھینچے جانے والے رکشے میں آئے تھے، وہ شملہ کی اونچی نیچی سڑکوں کے لیے موزوں سواری ہوتا تھا۔
اس تقریر نے ہمیں خوشی کے جذبات سے سرشار کردیا تھا۔ مگر جہاں اس قدر مسلم وطن کے لیے بے انتہا جوش و جذبہ اور ولولہ تھا وہاں اس وقت تک ہندوستان سے ایک نئی ریاست کی طرف ہجرت کے حوالے سے نہ اتنا دھیان دیا گیا تھا اور نہ کوئی ایسی خاص پیش بینی کی گئی تھی۔
پاکستان کا مطالبہ آزاد ہندوستان میں موجود ایک اچھی خاصی ہندو اکثریت سے اپنے مذہب اسلام کو خطرے کی زد میں پا کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ مطالبہ مسلمانوں کی جانب تعصب اور غیر منصفانہ رویوں کی وجہ عمل میں آیا تھا۔
اس کا اندازہ 1937 میں ہوا جب کانگریس نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت 1936/7 کے ہونے والے صوبائی انتخابات میں 11 میں سے 8 صوبوں میں کامیابی حاصل کی تھی — سندھ، پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ شامل نہیں تھے — اور ان صوبوں میں اپنی حکومت قائم کی جہاں دو سال سے بھی کم عرصہ یا یوں کہیں کہ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہونے تک حکومت قائم رہ پائی تھی۔
کانگریس کے صوبوں میں اس مختصر مدت میں مسلمانوں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے یا اذانوں یا مساجد میں نماز اور مذہبی تہواروں کے دوران کسی بھی قسم کی روکاوٹ یا مداخلت کا سامنا نہیں تھا اور نہ ہی مسلمانوں کے ذاتی اور فیملی قانون میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی تھی، مسلمانوں کے خلاف کاروبار، ملازمتوں، اسکول میں داخلوں، عدالتوں، سرکاری اور دیگر معاملات پر شدید تعصب برتا جاتا تھا۔
آل انڈیا کانگریس،جس میں کافی مسلمان بھی شامل تھے، نے جب وقت آیا تو خود کو بطور ایک ہندو جماعت ظاہر کیا۔ مسلمان خود کو بطور ہندوستانی اپنائے نہ جانے بلکہ مسلمان ہونے پر امتیازی سلوک رکھے جانے پر رنجش کا شکار ہوئے۔ مشرقی پاکستانیوں کی رنجش کی بھی یہی وجہ تھی کہ انہیں بطور پاکستانی اپنائے جانے سے زیادہ ان کے بنگالی ہونے پر امتیازی سلوک رکھا گیا تھا۔