'بہتر ہوگا کہ آپ پاکستان چلے جائیں'

اپ ڈیٹ 16 اگست 2016
ہزاروں مسلمانوں نے قاتلانہ اور لٹیرے ہندو اور سکھ بلوائیوں سے محفوظ رہنے کے لیے پرانے قلعے میں پناہ لی ہوئی تھی — اے پی/فائل
ہزاروں مسلمانوں نے قاتلانہ اور لٹیرے ہندو اور سکھ بلوائیوں سے محفوظ رہنے کے لیے پرانے قلعے میں پناہ لی ہوئی تھی — اے پی/فائل

3 جون 1947 کو آل انڈیا ریڈیو نے تقسیم ہند کے لیے برٹش حکومت پلان یا ماؤنٹ بیٹن پلان پر قائد اعظم محمد علی جناح کے خطاب کو براہ راست نشر کیا تھا۔

ہم نے وہ تقریر سملہ میں سنی جہاں ہم اپنے والدین کے ہمراہ تھے، جہاں ہر سال موسم گرما میں مرکزی حکومت کے سینئر افسران دہلی سے وہاں چلے آتے تھے۔

ہم نے سملہ (موجودہ شملہ) میں موجود وائسرائے ہاؤس میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹبیٹن سے ملاقات کے لیے آتے جاتے سیاسی رہنماؤں کو دیکھا۔ ان میں سے ہماری سب سے پسندیدہ یاد، نفیس لباس میں ملبوس اور سر پر ٹوپی سجائے ہوئے آئے قائد اعظم محمد علی جناح کی آمد تھی، وہ چار لوگوں کی مدد سے کھینچے جانے والے رکشے میں آئے تھے، وہ شملہ کی اونچی نیچی سڑکوں کے لیے موزوں سواری ہوتا تھا۔

اس تقریر نے ہمیں خوشی کے جذبات سے سرشار کردیا تھا۔ مگر جہاں اس قدر مسلم وطن کے لیے بے انتہا جوش و جذبہ اور ولولہ تھا وہاں اس وقت تک ہندوستان سے ایک نئی ریاست کی طرف ہجرت کے حوالے سے نہ اتنا دھیان دیا گیا تھا اور نہ کوئی ایسی خاص پیش بینی کی گئی تھی۔

پاکستان کا مطالبہ آزاد ہندوستان میں موجود ایک اچھی خاصی ہندو اکثریت سے اپنے مذہب اسلام کو خطرے کی زد میں پا کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ مطالبہ مسلمانوں کی جانب تعصب اور غیر منصفانہ رویوں کی وجہ عمل میں آیا تھا۔

اس کا اندازہ 1937 میں ہوا جب کانگریس نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت 1936/7 کے ہونے والے صوبائی انتخابات میں 11 میں سے 8 صوبوں میں کامیابی حاصل کی تھی — سندھ، پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ شامل نہیں تھے — اور ان صوبوں میں اپنی حکومت قائم کی جہاں دو سال سے بھی کم عرصہ یا یوں کہیں کہ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہونے تک حکومت قائم رہ پائی تھی۔

کانگریس کے صوبوں میں اس مختصر مدت میں مسلمانوں کو اپنے عقائد پر عمل کرنے یا اذانوں یا مساجد میں نماز اور مذہبی تہواروں کے دوران کسی بھی قسم کی روکاوٹ یا مداخلت کا سامنا نہیں تھا اور نہ ہی مسلمانوں کے ذاتی اور فیملی قانون میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی تھی، مسلمانوں کے خلاف کاروبار، ملازمتوں، اسکول میں داخلوں، عدالتوں، سرکاری اور دیگر معاملات پر شدید تعصب برتا جاتا تھا۔

آل انڈیا کانگریس،جس میں کافی مسلمان بھی شامل تھے، نے جب وقت آیا تو خود کو بطور ایک ہندو جماعت ظاہر کیا۔ مسلمان خود کو بطور ہندوستانی اپنائے نہ جانے بلکہ مسلمان ہونے پر امتیازی سلوک رکھے جانے پر رنجش کا شکار ہوئے۔ مشرقی پاکستانیوں کی رنجش کی بھی یہی وجہ تھی کہ انہیں بطور پاکستانی اپنائے جانے سے زیادہ ان کے بنگالی ہونے پر امتیازی سلوک رکھا گیا تھا۔

14 اگست 1947 کو کراچی میں قائدِ اعظم محمد علی جناح خطاب کر رہے ہیں، جبکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن انہیں دیکھ رہے ہیں۔
14 اگست 1947 کو کراچی میں قائدِ اعظم محمد علی جناح خطاب کر رہے ہیں، جبکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن انہیں دیکھ رہے ہیں۔

اس سب کے ساتھ اگست 1946 میں فسادات شروع ہو گئے تھے اور اسی سال اکتوبر میں بہار کے اندر ہندوؤں نے اقلیتی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کو وہاں شدید کرب سے گزرنا پڑا۔

ہندوؤں کے خلاف جوابی کارروائیاں مشرقی بنگال اور نوکھالی میں ہوئیں۔ اس سب کے باوجود یہ احساس، خصوصی طور پر مسلمانوں کے درمیان قائم رہا کہ ہندوستان میں ہندو اکثریت اور پاکستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے سے ایک توازن قائم رہے گا جس وجہ سے ان میں سے کسی ایک ملک میں بھی کسی ایک برادری کو امتیازی سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

وقت کے ساتھ، یہ بھی امید رکھی گئی تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم ہوں گے اور بڑی حد تک موجودہ یورپی یونین کے طرز پر ایک دوسرے کے ملک میں لوگ آزادی سے سفر کر سکیں گے اور اس کے علاوہ کام اور رہائش کے حوالے سے بھی مواقع ہوں گے۔

تقسیم ہند کو اس نظر سے دیکھا گیا تھا کہ چونکہ اگر دو مختلف مذہبی برادریاں اکٹھا نہیں رہ سکتیں تو کم از کم ایک دوسرے کے اچھے پڑوسی بن کر تو رہ سکتی ہیں۔

3 جون 1947 کو تقسیم ہند کے اعلان کے بعد جلد ہی ہم اپنی چھٹیاں مختصر کرکے دہلی لوٹ آئے تھے جہاں ہمارے والد محمکہ بیرونی معاملات اور دولت مشترکہ تعلقات سے منسلک تھے۔

وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے زیر نگرانی ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی جس میں کانگریس کی اکثریت اور مسلم لیگ کے چند وزرا شامل تھے۔ یہ حکومت ستمبر 1946 سے 15 اگست 1947 تک قائم رہی۔ نہرو نے ہمارے والد کے محکمے کی وزارت کا قلمدان سنبھالا تھا جبکہ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے۔

ہمارے لوٹنے کے کچھ عرصے بعد ہی ایک دن محکمے کے سیکریٹری، جو کہ ایک انتہائی غیر سیاسی اور قابل قدر ہندو افسر تھے، کو اپنے ہاتھوں میں کاغذ کا ایک ٹکڑہ تھامے میرے والد کی آفس میں داخل ہوئے اور کہا، ’میرا خیال ہے کہ بہتر ہوگا کہ آپ پاکستان چلے جائیں؛ جیسا ہم سوچ کر بیٹھے ہیں ویسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔’’

انہوں نے بتایا کہ انہوں نے میرے والد کا نام لندن میں ایک اجلاس کے لیے تین افسران کی ایک فہرست میں بھی شامل کیا تھا؛ وہ فہرست جب واپس آئی تو اس میں میرے والد کے نام پر لکیر کھینچی ہوئی تھی جبکہ نہرو کی لکھائی میں ایک ہندو افسر کا نام درج کیا ہوا تھا، حالانکہ اس افسر کا اجلاس کے ایجنڈے سے کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ایسا دوسری بار ہوا تھا، انہوں نے کاغذ دکھایا جس پر کافی ساری لکیریں کھنچی تھیں۔ نہرو نے اپنے قلم کی لکیروں سے ہی تقسیم ہند کو صحیح ثابت کردیا تھا۔

لوگ پیدل اور بیل گاڑیوں پر نئی سرزمین کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔
لوگ پیدل اور بیل گاڑیوں پر نئی سرزمین کی جانب ہجرت کر رہے ہیں۔

اگلے روز پاکستان منتقل ہونے کی ہماری تمام تر تیاریاں مکمل تھیں اور 8 اگست 1947 کو ہم دیگر سرکاری ملازمین اور ان کے اہل خانہ، جنہوں نے پاکستان میں کام کرنے کا انتخاب کیا تھا، کے ہمراہ دہلی سے چلنے والی اسپیشل ریل گاڑیوں میں سے ایک ریل گاڑی پر سوار ہوئے ۔ ہمیں پھر معلوم ہوا کہ ہم نے اچھے وقت میں ہجرت کی تھی کیونکہ اس کے بعد جلد ہی پنجاب اور دیگر علاقوں میں پرتشدد فسادات شروع ہو گئے تھے۔

دہلی میں موجود مسلمانوں کے لیے ستمبر 1947 خاص طور پر انتہائی ہولناک مہینہ تھا جب ہزاروں مسلمانوں نے ان کے علاقوں اور ان کے گھروں پر حملہ کرنے والے قاتلانہ اور لٹیرے ہندو اور سکھ بلوائیوں سے بچنے کی خاطر پرانے قلعے میں پناہ لی ہوئی تھی۔

مسلمانوں کو تقسیم ہند یا پاکستان کے مطالبے کی مضبوط مخالفت اور زبردست روکاوٹوں کو عبور کرنا پڑا تھا، مخالفین میں مسلمان حلقے بھی شامل تھے۔ مسلمان مذہبی سربراہاں نے پاکستان کی آخری وقت تک مخالفت کی تھی کیونکہ ان کے نزدیک یہ مطالبہ ایک مذہبی ریاست کے لیے نہیں تھا۔

اس کے علاوہ جابر اور استحصالی زمینداروں، جنہوں نے مغرب میں سب سے زیادہ مسلمان اکثریتی صوبے پنجاب میں سیاسی قیادت قائم کی ہوئی تھی، نے بھی پاکستان کی مخالفت کی تھی کیونکہ انہیں ایسا لگا کہ پاکستان کے قیام کے بعد اسٹیٹس میں تبدیلی آ جائے گی، اس لیے اسٹیٹس کو کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے یونینسٹ پارٹی کو بھی قائم کیا تھا۔

شمال مغرب میں واقع مسلمانوں کے خاص صوبے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبرپختونخوا) میں حکومت خان برادران کی سیاسی جماعت کی حکومت تھی جو کہ کانگریس اور نہرو کی حامی کی تھی۔

یہ مضمون ڈان سنڈے میگزین میں 14 اگست 2016 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Khan Aug 14, 2016 06:37pm
السلام علیکم: ‘‘نہرو نے اپنے قلم کی لکیروں سے ہی تقسیم ہند کو صحیح ثابت کردیا تھا‘‘ ۔ ڈان پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس بات کو نہ بھولیں۔ خیرخواہ