پاکستان

جی ایچ کیو سے چند قدم دور، چوری شدہ نیٹو سامان کی فروخت

.پاکستان آرمی کی وردیاں اور دیگر فوجی سازوسامان بھی اس بازار کی دوکانوں پر دستیاب ہے

اسلام آباد: پاکستان آرمی کے مشور زمانہ جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) سے چند کلومیٹر کی دوری پر کباڑی بازار واقع ہے-

اس بازار کی خاص بات یہ ہے کہ عام بازاروں کی طرح یہاں مقامی طور پر تیار کیا ہوا سامان نہیں بکتا، بلکہ یہ بازار سمگل شدہ اور لوٹے گئے نیٹو (NATO) کے سامان سے بھرا پڑا ہے-

اس بازار میں اس قسم کے سامان کی بھرمار ایک ایسے موقع پر نظر آ رہی ہے جب پڑوسی ملک افغانستان سے امریکن اور نیٹو فوجیوں کی روانگی شروع ہوچکی ہے۔

یہاں امریکن فوجیوں کے مخصوص سفری بیگز سے لے کر ہر موسم میں کام آنے والا سلیپنگ بیگ، بیلٹس، چمڑے کے بنے پستولوں کے ہولسٹر، بہترین قسم کے جوتے، شکار کا سامان، ٹوپیاں اور خیمے تک دستیاب ہیں-

ظھرالدین نامی اس بازار کے ایک دکاندار نے بڑی بیباکی سے اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ سب سامان یا تو افغانستان سے سمگل ہو کر یہاں پاکستان آ رہا ہے یا پھر یہ امریکن فوجیوں کے لئے سازوسامان سے لدے، پاک افغان سرحد پر کھڑے کنٹینرز کو لوٹ کر یہاں پہنچایا گیا ہے-

ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں اس سامان کی سپلائی کوئٹہ اور پشاور سے ہوتی ہے-" ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ مختف قسم کی سامان کے لئے ایک مڈل مین کو آرڈر دیا جاتا ہے جو کہ ایک ماہ بعد یہ سامان لے کر مارکیٹ پہنچاتا ہے- ظھرالدین نے دعویٰ تھا کہ اس کی دکان پر موجود تمام سامان اصلی اور امریکا کا بنا ہوا ہے-

انہوں نے بتایا کہ "ہر آئٹم پر امریکن جھنڈا بنا ہوا ہے اور امریکن کمپنی کا برانڈ بھی لگا ہوا ہے- ہم جعلی یا نقلی سامان نہیں بیچتے-"

یہاں دستیاب سامان کی فہرست صرف بنیادی نوعیت کے سفری سازوسامان پر ہی مشتمل نہیں- رات میں دیکھنے کے لئے چشمے اور لیزر رائفلز بھی اچھے خریداروں کے لئے آرڈر پر دستیاب کرائے جا سکتے ہیں- دوکاندار نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ "چونکہ یہ چیزیں نازک اور قیمتی ہوتی ہیں اس لئے ہم انہیں دوکان پر نہیں رکھتے-"

یہاں امریکن فوجیوں کے لئے بنے جوتے 3000 روپے یعنی تقریباً 30 ڈالر میں، جبکہ سفید بیلٹس اور سفری بیگز جن پر امریکن جھنڈا بنا ہوا ہے، 500 روپے (5 ڈالر) سے لے کر 2500 روپے (25 ڈالر) تک میں دستیاب ہے-

تاہم، ہاتھوں ہاتھ بکنے والے اس سامان کا حصول بھی ہر دوکاندار کے لئے ممکن نہیں- ظھرالدین نے بتایا کہ "کوئٹہ اور پشاور کے بڑے بڑے کاروباری لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے بغیر کوئی بھی دکاندار، امریکن فوجیوں کے لئے بنے سامان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا-"

بازار میں موجود عرفان محمود نامی ایک خریدار کا کہنا تھا کہ وہ اس بازار کا ہر دو ہفتے بعد چکر لگاتے ہیں تا کہ یہ دیکھ سکیں کہ کیا نیا سامان آیا ہے اور ان کے مطابق، امریکن جوتے اور کمانڈو بیلٹس بہت اعلیٰ ہیں اور مقابلے میں خاصی سستی بھی- انہوں نے بتایا کہ وہ ایک امریکن سفری بیگ اور خیمے خریدنے آئے ہیں کیونکہ وہ اگلے ہفتے اپنی فیملی کے ساتھ کاغان کے سفر کا ارادہ رکھتے ہے-ً

افغانستان میں موجود امریکن اور نیٹو فوجیوں کے لئے بھاری مقدار میں آنے والا سازوسامان سب سے پہلے کراچی کی بندرگاہ پہنچتا ہے- جہاں سے اسے کنٹینرز میں بھر کر کابل روانہ کیا جاتا ہے- اس سامان کو پشاور، درہ خیبر کے رستے یا پھر چمن کے راستے کابل پہنچانے میں پاچ دن لگ جاتے ہیں-

کسٹمز کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ بتایا کہ زیادہ تر کیسز میں کنٹینرز کے ڈرائیور اور کنڈکٹرز، پشاور اور کوئٹہ کی بلیک مارکیٹ میں یہ سامان بیچ دیتے ہیں اور تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سامان، کابل جاتے ہوئے لوٹا گیا تھا- لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ سامان کی چوری یا لوٹ کے معاملے کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا-

اہلکار نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ ہتھیار اور گولہ بارود زمینی رستے کے بجائے فضائی رستے سے کابل بھیجا جاتا ہے-

بازار کے ایک اور دوکاندار، محمّد خورشید کا کہنا تھا کہ وہ امریکن فوجیوں کے لئے بنی وردیاں پشاور سے منگاتا ہے- لیکن اس نے اس سامان کی سمگلنگ یا چوری کے معاملے سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا- انہوں نے اپنے کاروبار کی گنا ترقی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ "ہم ایڈوانس میں پشاور کے ایک آڑھتی کو ادائیگی کر دیتے ہیں جو ہمیں دو ہفتے میں ہمارا مطلوبہ سامان پہنچا دیتا ہے-

پاکستان آرمی کی وردیاں اور دیگر فوجی سازوسامان بھی اس بازار کی دوکانوں پر آویزاں نظر آتا ہے- بہت سے فوجی اور سویلینز یہ سامان خریدتے ہیں حالانکہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس پر پابندی ہے-

اکتوبر 2009 میں راولپنڈی میں جی ایچ کیو پر ہونے والے ایک حملے کے بعد مقامی انتظامیہ نے نجی درزیوں پر فوجیوں اور دیگر گیئرز کے لئے یونیفارم کی سلائی پر پابندی لگا دی تھی لیکن یہ پابندی صحیح ممعنوں میں نافذ نہیں-.خیال کیا جاتا ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ کے دوران، دہشت گردوں نے جو وردیاں پہنی ہوئی تھیں وہ انہوں نے کھلی مارکیٹ سے ہی خریدی تھیں-

بہرحال، امریکی فوجیوں کے لئے بنی یہ اشیاء، اپنی پائیداری اور نسبتا سستی قیمتوں کے سبب خاصی مقبول ہیں- اور یہ صرف کباڑی بازار ہی میں دستیاب نہیں- پشاور کی کارخانو مارکیٹ بھی الیکٹرانک آلات اور گھریلو اشیاء سمیت چوری شدہ نیٹو سامان کی خریدوفروخت کے لئے بدنام ہے-

اسلام آباد سے عامر سعید کی رپورٹ