ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن کو اگر بڑے اداکاروں، صداکاروں، فنکاروں اور گلوکاروں کی نرسری کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہوگا۔ اس ریڈیو اسٹیشن کی عمر 61 برس ہے۔ 17 اگست سن 1955 کو ہوم اسٹڈیم ہال کے چار کمروں میں اس ریڈیو اسٹیشن کی نشریات شروع ہوئیں، 11 سال بعد یعنی سن 1968 میں یہ اسٹیشن موجودہ عمارت میں منتقل ہوئی جس کا افتتاح اس وقت کے صدر ایوب خان نے کیا۔
یہ ریڈیو اسٹیشن بھی کسی ریل گاڑی کی مانند ہے۔ فن کی گٹھڑیاں اٹھائے کئی فنکار آتے ہیں، ہر ایک کو اپنے اسٹیشن پر اترنا ہوتا ہے۔ حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن پر یوں ہی لوگ آتے گئے ، چلتے اور رکتے گئے۔
ابھی ریڈیو حیدرآباد دو سال کی عمر کو پہنچا ہی تھا کہ ایک دبلا پتلا کمزور جسامت کا نوجوان اسٹیشن پر پہنچا۔ اس کا نام صالح محمد شاہ تھا۔ وہ آٹھویں کلاس یعنی فائنل پاس پرائمری استاد تھا، لیکن ریڈیو اس کا جنون تھا۔ اسے اس کے عزیز سید منظور نقوی ریڈیو اسٹیشن لائے تھے۔
صالح محمد شاہ نے اپنے کریئر کی شروعات ریڈیو کے ڈراموں میں چھوٹے موٹے کردار کی ادائیگی سے کی، مگر جنون کا تقاضا تھا کہ وہ مستقل طور پر ریڈیو سے جڑنا چاہتے تھے اور کام کی لگن بھی عروج پر تھی۔
پھر ہوا یہ کہ ایک دن اسٹیشن پر کوئی اناؤنسر چھٹی پر گیا تو ریڈیو انتظامیہ نے اناؤنسمنٹ کی ذمہ داری اس نوجوان صالح محمد کے سپرد کردی۔
نوجوان صالح کی اناؤنسمنٹ میں آواز و ادائیگی کا انداز اسٹیشن ڈائریکٹر کو بھا گیا۔ بالآخر صالح محمد شاہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے اناؤنسر بن گئے۔
یہ وہ وقت تھا کہ جب سندھ میں ریڈیو ڈراموں کی مقبولیت اپنی انتہا کو تھی۔ کہتے ہیں کہ جب گاؤں گوٹھوں میں کوئی ریڈیو ڈرامہ شروع ہوتا تو گاؤں کی اوطاقوں میں سوائے صداکاروں کی آواز کے اور کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔
اسی دوران انہوں نے آغا سلیم کے ڈرامے 'گلن جھڑا گھاؤ' (پھولوں جیسے زخم)، امر جلیل کے 'سجن سفر ھلیا' (ساجن سفر کو چلے)، علی بابا کے ڈرامے 'رن جا راھی' (ریگستان کے مسافر) اور 'تموچن' میں مرکزی ہیرو کا کردار ادا کیا۔ یہ سب ڈرامے سپر ہٹ ہوئے۔
1958 میں حیدرآباد اسٹیشن سے دیہاتیوں کی گفتگو پر مبنی ’گوٹھانی کچہری‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع ہوا جس کے لیے 80 برس کے کسی معمر، جہاں دیدہ، دور اندیش، سماجی سائنس کے ماہر اور لوک دانش رکھنے والے کردار کی ضرورت تھی۔
اس وقت صالح محمد شاہ کی عمر محض بیس بائیس برس ہی تھی لیکن جب انہوں نے اس پروگرام میں 80 برس کے اس مطلوبہ کردار کی صداکاری کی تو ریڈیو نے انہیں اس کردار کے لیے قبول کر لیا۔
کچہری کا تھیم سندھ کے دیہاتوں میں لوگوں کے مابین ہونے والی گفتگو سے لیا گیا تھا۔ گاؤں گوٹھوں میں دن بھر کی مصروفیات کے بعد پیپل، نیم، ببول اور ٹالہی کے گھنے درختوں کے جھرمٹوں کے بیچ بسے گاؤں کے بڑے بوڑھوں کی گفتگو کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ جہاں دیدہ، دور اندیش اور سماجی سائنسدان دیہاتی لوگ جب اپنی گفتگو کی گانٹھوں کو کھولتے تھے تو رات ان کی باتوں میں ہی گزر جاتی تھی۔
محلے کی باتیں، گاؤں کی باتیں، شہر کی ترقی، سماجی حالات، ملکی صورتحال اور پھر بات آ کر سیاست پر ختم ہوتی تھی۔ فجر کی اذان کے ساتھ باتوں کی گٹھڑی پھر سے باندھ دی جاتی۔
اب تو گھنی چھاؤں والے درخت بھی قصہء ماضی بن چکے ہیں۔ نہ درخت، نہ چھاؤں، نہ وہ محبتیں اور نہ ہی وہ کچہریاں اور محافل رہی ہیں۔ مگر جب وہ محفلیں زندہ تھیں تب انہیں ریڈیو اسٹیشن پر بھی سجایا گیا تھا اور ان کا مرکزی کردار تھا فتح خان۔
فتح خان کا اصلی نام بھلے ہی صالح محمد شاہ تھا مگر ریڈیو نے جو نام بدلا تو باہر کی دنیا نے بھی صالح محمد شاہ کو نہیں فتح خان کو جاننا شروع کردیا۔ پروگرام کے کردار فتح خان کو ڈاڈو (دادا) یا جھونو (بڈھا) کے نام سے پکارتے تھے، لہٰذا سامعین نے بھی انہیں انہی ناموں سے پکارنا شروع کردیا۔