پاکستان

قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد حکومت کیلئے چیلنج

موجودہ حالات میں پاکستان قومی ایکشن پلان یا کشمیر پردنیا کواپنا مؤقف بتانےمیں زیادہ کامیاب نہیں ہوسکتا، دفاعی تجزیہ کار

اسلام آباد: ایک طرف حکومت ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے، وہیں دوسری جانب قومی ایکشن پلان (نیپ) کے چھ سے سات اہم نکات پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد نہ ہونا حکومتی کوششوں پر سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ بظاہر حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج معلوم ہوتا ہے۔

گذشتہ روز قومی ایکشن پلان کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے سول و عسکری قیادت کے اہم جائزہ اجلاس میں جہاں قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر خصوصی کوششوں پر اتفاق کیا گیا، وہیں اس کے 6 سے 7 ایسے نکات کا بھی ذکر ہوا جن پر درست انداز میں کام نہیں ہوسکا۔

اگرچہ اس اجلاس کے اعلامیے میں قومی ایکشن پلان کے مذکورہ نکات کی تفصیل یا ان پر عمل نہ ہونے کی وجہ تو نہیں بتائی گئی، مگر اس پلان کے کُل 20 نکات میں جو اہم نکات شامل ہیں ان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام، فاٹا اصلاحات، دہشت گردی کے خلاف قومی سطح پر ایک فضا قائم کرنا، ملک میں کالعدم تنظیموں کی جانب سے نام تبدیل کرکے کی جانے والی سرگرمیوں کو روکنا، غیر رجسٹرڈ مدارس کی نشاندہی اور ان کی رجسٹریشن کے علاوہ نفرت انگیز مواد کی تشہیر کو روکنے کے ساتھ انٹیلی جنس کے نظام کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔

اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ وہ سمجھے کہ جن 6 یا 7 نکات کا ذکر کیا گیا ان میں مدارس کی رجسٹریشن اور غیر قانونی مدارس جیسے نکات ہوسکتے ہیں، جن کے خلاف اب تک کارروائی نہیں ہوئی۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے امتیاز گل کا کہنا تھا کہ جن نکات پر بظاہر کام نہیں ہوا، ان میں انصاف کے نظام کی بہتری اور اس میں اصلاحات اور صوبوں میں پولیس کو سیاست سے پاک کرنا بھی شامل ہوسکتے ہیں۔

امتاز گل کے مطابق فاٹا اصلاحات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے وزیراعظم کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وزارتیں اپنا کام کریں تو شاید یہ معاملات کافی حد تک درست سمت کی جانب جاسکتے ہیں۔

انھوں نے ملک کی موجود صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ پاکستان قومی ایکشن پلان یا مسئلہ کشمیر پر دنیا کو اپنا مؤقف بتانے میں کچھ زیادہ کامیاب ہوسکتا ہے۔

دفاعی تجزیہ کار امتیاز گل کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پلان کے 20 نکات میں افغان مہاجرین بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کے حوالے سے حکومت نے کہا کہ دستمبر کے بعد ان مہاجرین کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے، یہ ایک جذباتی قدم تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے بیانات سے بہت سی منفی کہانیوں نے جنم لیا اور وہ بچے جنہوں نے افغانستان دیکھا ہی نہیں، اُن کو بھی یہاں سے جانے پر مجبور کردیا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ہم شروع سے ہی یہ بات کرتے آئے ہیں کہ جو بچے پاکستان میں پیدا ہوئے یا وہ خاندان جن کی یہاں پر شادیاں ہوئیں ان کو اگر شہریت نہیں تو کم سے کم ایک مستقل جگہ ہی فراہم کی جائے، کیونکہ ایسے اقدام سے ناصرف ان لوگوں کا مستقبل تباہ ہوگا، بلکہ پاک- افغان تعلقات پر بھی بہت اثر پڑے گا۔

امتاز گل کا کہنا تھا کہ ہمیں تو ان افراد کو خیر سگالی کا سفیر بنا کر بھیجنا چاہیئے تھا، لیکن بدقسمتی سے وہ دشمن بن کر روتے ہوئے گئے ہیں۔

قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومتی سنیجدگی کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے جو ادارہ بنایا اس کو چلانے کے لیے ہمارے پاس رقم ہی نہیں ہے اور نیکٹا کا پورا نظام ہی غیر ملکی فنڈنگ کا محتاج ہے۔

مزید پڑھیں: 'نیکٹا میں مسائل کی وجہ حکومتی عدم توجہ'

خیال رہے کہ گذشتہ روز وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں قومی ایکشن پلان (نیپ) کا اہم اجلاس وفاقی دارالحکومت میں ہوا جس میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور اس میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لیا گیا۔

یہ بھی پڑیں: نیشنل ایکشن پلان: خفیہ اداروں کی کارکردگی کی تعریف

اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ قوم کے غیر متزلزل عزم، سیکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاتعداد اور مستقل قربانیوں کے سبب مادر وطن کے طول و عرض میں سیکیورٹی کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے یہ اب تک کا ہونے والا اہم ترین اجلاس تھا، جس میں وزیراعظم کے علاوہ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوئے۔

واضح رہے کہ 24 دسمبر 2014 کو حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکشن پلان کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں وزراء، سینیئر حکومتی، فوجی کے اعلیٰ افسران، ملٹری آپریشنز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی ) کے ڈائریکٹرز جنرل بھی شامل تھے، اس کمیٹی کو اقلیتوں پر ظلم وستم، مدارس کی رجسٹریشن، فرقہ واریت اور میڈیا پر پابندی جیسے معاملات کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

وزیراعظم نے کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرنے کے لیے بھی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں وفاقی وزارت داخلہ، اطلاعات ونشریات، ترقی و منصوبہ بندی اور دفاع، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور اور خیبر پختونخوا کے گورنر شامل تھے۔