'موجودہ حکومت میں پالیسی کا فقدان ہے'
اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما حیدر زمان قریشی کا کہنا ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے پاس خارجہ پالیسی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اہم مسائل پر بات نہیں کی گئی۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز آئی' میں گفتگو کرتے ہوئے حیدر زمان قریشی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں سول و عسکری قیادت میں جو توازن قائم کیا تھا، موجودہ حکومت نے اسے ختم کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبہ، مسئلہ کشمیر، امریکا، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بہت ہی پیچیدہ معاملات میں سے ہیں اور ہمارے پاس اب تک ایک فل ٹائم وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد حکومت کیلئے چیلنج
انھوں نے کہا کہ ان مسائل پر حکومت کی عدم توجہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال ہونے کو آجاتا ہے اور کابینہ کا اجلاس طلب نہیں کیا جاتا اور پھر جسٹس ثاقب نثار کو سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر کروانا پڑتا ہے جس کے بعد ہفتہ وار کابینہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ ان کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کرتے ہوئے یہی کہا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیشنل سیکیورٹی اور مسئلہ کشمیر پر سب کو ایک میز پر لے کر آئے۔
حیدر زمان قریشی کا کہنا تھا کہ اسی طرح کُل جماعتی کانفرنس میں بھی حکومتی ناکامی واضح ظاہر ہوئی جہاں پر لائن آف کنٹرول پر بھارتی جاریت کے حوالے سے ایک بریفنگ دینی چاہیے تھی جو کہ نہیں دی گئی۔
دوسری طرف پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 3 سالوں میں سول ملٹری تعلقات ناہموار رہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان 29 ملاقاتیں ہوئیں، جبکہ قومی سلامتی کمیٹی کے صرف 2 اجلاس ہوئے۔
رپورٹ میں خارجہ امور اور کل وقتی وزیر خارجہ مقرر نہ کیے جانے کا بھی ذکر کیا گیا، جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف بننے والے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت اور فوج ایک صفحے پر نہیں ہیں جوکہ ایک افسوسناک بات ہے۔
تجزیہ کاروں کی رائے میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جو تشنہ طلب سوالات تھے ان میں پاکستان کی طرف سے اُوڑی حملے کی تفتیش، پٹھان کوٹ حملے کی تفتیش، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا ذکر، بھارت کا افغانستان اور بلوچستان کے حوالے سے جارحانہ رویہ اور بھارتی مداخت کے ثبوت کی تفصیل، مسئلہ کشمیر کے حل میں کشمیر کمیٹی کے کردار کے علاوہ قبائلی علاقوں میں حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کے الزامات کی حقیقت جیسے سوالات شامل تھے جن پر بات نہیں کی گئی۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایک طرف جہاں وزیراعظم نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کا ذکر کیا، وہیں اپوزیشن نے بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن کئی ایسے سوالات پر بحث نہ ہوسکی جو کہ موجودہ حالات میں اہمیت کے حامل تھے۔