پاکستان

'مسلح تنظیموں سے مدد کا الزام ن لیگ کی سازش'

ن لیگ کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ثابت کرکے دکھائیں کہ عمران خان نے کسی بھی مسلح تنظیم سے رابطہ کیا ہے، جہانگیر ترین

اسلام آباد: پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین نے اپنی جماعت پر مسلح تنظیموں سے مدد حاصل کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے جوکہ مسلم لیگ (ن) کی سوچی سمجھی سازش ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ان فوکس' میں گفتگو کرتے ہوئے جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ 'مسلح تنظیموں سے مدد حاصل کرنے کا الزام جھوٹ پر مبنی ہے جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں اور حکومت ایسا اس لیے کررہی ہے، کیونکہ وہ اب گھبراہٹ کا شکار ہے'۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں 126 دن ہم اسلام آباد میں تھے اور وہاں کوئی ایسی حرکت نہیں کی گئی جس سے امن و امان کو نقصان پہنچے، ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اور ہمارے مقاصد بھی سیاسی ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا اب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان حکومت سے اس الزام کے حقائق سامنے رکھنے کا مطالبہ کریں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ 'میں ن لیگ کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ ایک بھی ثبوت سامنے لائیں اور یہ بات ثابت کرکے دکھائیں کہ عمران خان نے کسی بھی مسلح تنظیم سے رابطہ کیا ہو'۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ عمران خان اب واضح طور کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات کسی صورت نہیں ہوں گے تو کیا اب آپ کا حکومتی کمیٹی پر ذرا بھی بھروسہ نہیں رہا؟ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم تقریباً 7 ماہ تک پاناما لیکس کے مسئلے پر بننے والی کمیٹی کا حصہ رہے، لیکن نتیجہ صفر نکلا تو اس لیےہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب سڑکوں پر احتجاج ہوگا۔

جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ حکومت کے لیے تو 30 ستمبر کا رائے ونڈ مارچ ایک مثال تھا جس میں لاکھوں لوگ احتساب کا مطالبہ کررہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر قانونی جنگ لڑنا اور سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا دونوں ہی ہمارے حقوق ہیں۔

خیال رہے کہ دو روز قبل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2 نومبر کے لیے اسلحہ بردار تنظیموں کی مدد مانگنا شروع کردی ہے۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی پر اسلحہ بردار تنظیموں سے مدد مانگنے کا الزام

حکومت کی طرف سے یہ الزام ایک ایسے وقت میں لگایا گیا جب اگلے ماہ 2 نومبر کو پی ٹی آئی پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہی ہے۔

عمران خان واضح کرچکے ہیں کہ پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کا احتساب ہر قیمیت پر ہونا چاہیے اور اسی مقصد کے لیے وہ اسلام آباد کو بند کردیں گے۔

دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پاناما لیکس کے حوالے سے نواز شریف سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرچکی ہے اور اس کیس کی پہلی سماعت اسلام آباد دھرنے سے صرف ایک دن پہلے یعنی یکم نومبر کو رکھی گئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آیا حکومت اس معاملے پر کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ کرتی ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہوا تو اسلام آباد دھرنے کا مستقبل ممکنہ طور پر کیا ہوسکتا ہے۔

یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔

ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

یہاں پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔

بعدازاں پاناما لیکس کی تحقیقات کی غرض سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر اب تک متفق نہ ہو سکے۔