حق گوئی: ڈان کی ایک قدیم روایت
گلوبلائزیشن کے دور کی آمد کے ساتھ کئی دقیانوسی، قدیم وضع کی اقدار اب ختم ہوچکی ہیں اور یہ اقدار ایک اور قدیم اصول سے منسلک ہیں جس میں آزاد میڈیا کو ایک طرف حکمرانی پر نظر رکھنے والی آنکھ تو دوسری جانب شہریوں کی جائز شکایات پر اٹھنے والی آواز تصور کیا جاتا ہے۔
ڈان میں ہم اب بھی اکثر و بیشتر تنقید کا نشانہ بننے والی سچ بولنے کی عادت پر قائم ہیں۔ اس اخبار کی ستر سالہ تاریخ میں ہم نے اس پرانی عادت پر قائم رہنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں اس کے لیے کبھی ریاستی اداروں تو کبھی سیاسی جماعتوں کا دباؤ بھی اپنے کندھوں پر برداشت کیا ہے۔
مگر پھر بھی ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ہم نئے دور سے متصادم اس عادت پر قائم رہیں کیوں کہ اس اخبار کی بنیاد قائدِ اعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی۔ اگر سادہ الفاظ میں کہوں تو ہم نے نسبتاً پروقار طریقے اور ہر جائز و قانونی راستے کو اپناتے ہوئے سچ بولنے کا سفر جاری رکھا ہے۔
اب جبکہ ڈان کا لاہور ایڈیشن اپنی اشاعت کے بیسویں سال میں داخل ہو رہا ہے تو پیچھے دیکھنے پر ہمیں بہت اطمینان محسوس ہوتا ہے۔ یہ اخبار ملک کے تمام انگریزی اخبارات سے مجموعی طور پر بڑا ہے، اور اس کامیابی میں ہمارے لاہور اور اسلام آباد ایڈیشنز بھی شامل ہیں۔
سچ بولنے کی اس پرانی عادت پر قائم رہنا اور اپنا سفر جاری رکھنا لاہور اور ملک بھر کے قارئین کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا ہے۔ مگر اس قومی فوقیت کے ساتھ ہم پر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
ایک پرانی عادت پر قائم رہنے کے لیے کسی بھی ادارے کو مستقل مگر لچکدار انتظام کی ضرورت ہوتی ہے اور ڈان میں بھی اس انتظام پر قائم رہنے کے لیے نہ صرف روایات میں تسلسل ضروری ہے، بلکہ روایات پر قائم رہنے کا پختہ عزم بھی درکار ہے۔
اگر پہلی نظر میں دیکھا جائے تو ہمارا یہ طرزِ عمل پاکستان کی نئی نسل، جو موجودہ پاکستان میں ایک اکثریت ہے اور جس میں 30 سال سے کم عمر کے شہری شامل ہیں — کی نئی اقدار سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا۔
پر اگر یہ نسل پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں آزادیءِ صحافت کے لیے اخبارات کی جدوجہد کے پیچھے موجود ورثے سے پوری طرح واقف نہیں ہے، تو پھر بھی یہ ایک آزاد معاشرے کی اخلاقی حمایت اور آزاد پسند خیالات کے ذریعے آگاہی کی اس کمی کو پورا کر دیتی ہے۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ اس نسل کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ میں کہوں گا کہ پاکستان کی یہ نوجوان نسل ہمارے معاشرے کی تعمیرِ نو کے لیے ہمارے پاس موجود سب سے زبردست وسیلہ ہے۔ اس لیے سچ بولنے کی ضرورت اب بھی موجود ہے۔
سچ بولنے کی روایت کو قائم رکھنے کے لیے ڈان میں کیا ادارہ جاتی انتظامات موجود ہیں؟ جب قائدِ اعظم محمد علی جناح نے 1947 میں کراچی میں ڈان اخبار کی بنیاد رکھی تھی تو ہم نے ڈان کے ادارتی اور انتظامی فیصلہ سازی کے شعبوں کو الگ رکھا تھا۔ مختصراً یہ کہ ڈان کا مدیر ایک پروفیشنل ہوگا، جسے اس کی صحافتی ایمانداری، قابلیت، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی معقول رویے، اور خبریں اکٹھی کرنے اور ایک منصفانہ تبصرہ دینے میں اس کی غیر جانبداری کی بناء پر تعینات کیا جاتا ہے۔
ایک بار تعیناتی کے بعد ڈان (اور اس کی تمام ذیلی اشاعتوں) کے مدیران تمام ادارتی فیصلے خود لیتے ہیں جن کا براہِ راست اثر خبریں اکٹھی کرنے کے عمل پر پڑتا ہے۔ کارپوریشن کے انتظامی اہلکار و افسران ادارتی فیصلے نہیں لیتے اور اس طرح وہ خبروں کے مواد پر کسی بھی طرح سے اثرانداز نہیں ہوسکتے۔
اگر کسی مسئلے پر اختلافِ رائے پیدا ہو تو اسے ڈان کے مدیر اور اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر/پبلشر، جو کہ انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے، کے درمیان باہمی مشاورت کے ذریعے حل کیا جاتا ہے، اور یہ سب کسی بھی خبر کے شائع ہونے کے بعد ہوتا ہے، نہ کہ اس کی اشاعت سے پہلے۔
انتظامیہ جو بھی معلومات (بالعموم پالیسی معاملات) پہنچانا چاہتی ہے، وہ مدیر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر/پبلشر کے درمیان باہمی گفتگو کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔ ڈان کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ کے علاوہ انتظامیہ کا کوئی بھی رکن، کوئی شیئر ہولڈر، کارپوریشن کے کسی حصے کا مالک، یا کارپوریشن کے باہر سے کوئی شخص کبھی بھی اس باہمی بات چیت تک نہ رسائی رکھتا ہے اور نہ اس پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈان کی ادارتی اور انتظامی فیصلہ سازی کے درمیان ایک غیر مرئی دیوار موجود ہے۔
ڈان کے مدیر قدرتی طور اپنے اخبار کی مالیاتی کارکردگی، خصوصی طور پر اشتہارات اور سرکولیشن کے معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر یہ بھی باہمی مشاورت کے طے شدہ اور روایتی اصولوں کے تحت ہوتا ہے تاکہ خبروں اور منافع کے درمیان کسی قسم کے مفادات کا ٹکراؤ نہ پیدا ہو۔ اس باہمی مشاورت کے دونوں شرکاء، یعنی ڈان کے مدیر اور چیف ایگزیکٹو آفیسر کو نظریاتی اور عملی طور پر ایک آزاد اخبار کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے، اور پاکستان میں آزادیءِ صحافت کی کوششوں پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔
میں نے کوشش کی ہے کہ ڈان کی کامیابی کے راز پر سے یہ پردہ اٹھایا جائے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔ گذشتہ دو سو سالوں سے آزاد صحافت کے لیے یہی ڈیزائن موجود ہے۔ اس ملک میں چاہے جو کچھ بھی تبدیل ہوا ہو، مگر اس اصول پر عمل پیرا رہنے کی ضرورت تبدیل نہیں ہوئی ہے، اور ڈان میں ہم معنی خیز طور پر اس روایت کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ اسی لیے جب ہم ڈان میں شائع ہونے والی ایک حالیہ خبر پر چند ٹی وی چینلز پر مضحکہ خیز بحث و مباحثوں کا سیلاب دیکھتے ہیں تو ہمارا واحد ردِعمل کوئی تبصرہ نہ دینا اور ان کی نیت پر شک کرنا ہوسکتا ہے۔
اب جبکہ ریاست کی جانب سے سنجیدہ اور معقول ادارتی طرزِ عمل کے باوجود ڈان کی سرزنش کی جارہی ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں حکومتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے بغیر غور و خوض کے اور غلط جگہوں پر ردِعمل دینا بے حد عام ہے۔
ڈان میں کوئی بھی اپنے کامل ہونے اور غلطیوں سے پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ گذشتہ ماہ کی ابتداء میں سکیورٹی معاملات سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی خبر پر ردِعمل دیتے ہوئے ڈان کے اداریے کا کہنا تھا کہ: "کوئی بھی ادارہ فیصلہ سازی میں غلطی کرسکتا ہے اور اس کا اطلاق ڈان پر بھی ہوتا ہے، تاہم ڈان اخبار سمجھتا ہے کہ اس نے خبر پر پیشہ ورانہ انداز میں کام کیا اور ایک سے زائد ذرائع سے تصدیق کے بعد ہی خبر کی اشاعت ہوئی۔ علاوہ ازیں، منصفانہ اور متوازن صحافت کے اصولوں کے عین مطابق، جس کے لیے ڈان اخبار کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر سراہا جاتا ہے، روزنامہ ڈان نے وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کیے گئے دونوں تردیدی بیانات شائع کیے۔"
جب ڈان کے مدیر یہ کہتے ہیں کہ خبر کی اشاعت سے پہلے ہمارے اشاعتی اصولوں کے تحت تصدیق، اور پھر تصدیق کی گئی تھی، تو میں ان کی بات پر یقین کرتا ہوں۔ وزیرِ اعظم ہاؤس کے بیانات بھی باضابطہ طور پر شائع کیے گئے تھے۔ کسی بھی دوسری حکومت کی طرح اس حکومت کو بھی اس مسئلے کو دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ اس طرح حل کرنا چاہیے، جیسا کہ ایک جمہوری حکومت کو شفاف، منصفانہ اور آزاد انداز میں کرنا چاہیے۔
اور ہاں، ہمیں بھی ہمیشہ خبر کی تصدیق کے اپنے طریقہءِ کار کے متعلق محتاط رہنا چاہیے، خبروں کو حقائق پر مبنی اور منصفانہ رکھنا چاہیے، اور جب اس طرح کی رپورٹنگ کی بات آئے، تو قومی سلامتی پر جائز خدشات اور مطالبوں کو سمجھنا چاہیے۔
مگر جیسا کہ اس اداریے میں کہا گیا تھا، ڈان اخبار "اپنے اوپر ذاتی فوائد کے حصول، غلط رپورٹنگ یا قومی سلامتی کی خلاف ورزی جیسے کسی بھی قسم کے الزام کے خلاف پوری طاقت کے ساتھ اپنا دفاع جاری رکھے گا۔"
بدقسمتی سے یہ سچ بولنے کی ہماری پرانی عادت کا ایک قلیل المدتی نقصان ہے۔
حمید ہارون ڈان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں۔