دنیا

ترکی : جنسی زیادتی کی سزاء کا متنازع بل واپس

حزب اختلاف اور دائیں بازو کے گروپ چاہتے ہیں کہ خواتین سے زیادتی کرنے والے ملزمان کو سزا نہ دی جائے، ترک وزیر اعظم

استنبول: ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے جنسی زیادتی اور شادی سے متعلق متنازع بل کو عوامی احتجاج کے بعد واپس لے لیا ہے، ترک وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف اور دائیں بازو کے لوگ چاہتے ہیں کہ لڑکیوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مرد ملزمان کو سزا نہ دی جائے۔

متازع بل کو واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے کہا کہ صدر رجب طیب اردگان نے بل سے متعلق تمام فریقین سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی ہے، بل سے متعلق تمام سیاسی فریقین اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

بن علی یلدرم کا کہنا تھا کہ بل کو اسمبلی میں پیش نہیں کیا جا رہا، یہ کو ایک کمیشن کے حوالے کیا جارہا ہے جو 18 سال سے کم عمر لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے الزام میں قید ملزمان کے حوالے سے بل پر فیصلہ کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی : جنسی زیادتی کے متنازع قانون کے خلاف مظاہرے

خیال رہے کہ ترک حکومت ایک ایسا بل لانا چاہتی تھی جس کے تحت کم عمر لڑکیوں سے جنسی زیادتی کرنے والے مردوں کو اس صورت میں معافی مل سکتی تھی، جب وہ متاثرہ لڑکی سے شادی کرنے کو تیار ہوتے۔

ترک حکومت کے اس متنازع بل کے خلاف ترکی میں مظاہرے شروع ہوگئے تھے، ہزاروں خواتین اپنی جواں سالہ بیٹیوں اور بچوں سمیت روڈوں پر نکل آئیں تھیں، احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی صورت میں جنسی زیادتی کو قانونی شکل دینے نہیں دیں گی۔

متنازع بل کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں کے خیال کے مطابق حکومت بل کے ذریعے جنسی زیادتی کو جائز قرار دینا چاہتی ہے، جب کہ حکومت کا ماننا ہے کہ وہ بل کے ذریعے ملزمان کو سزا دینے کے لیے قانون سازی کر رہی ہے۔